1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قطر میں ایک لاکھ پاکستانیوں کو ملازمتیں دینے کا منصوبہ

25 جون 2019

قطر دو ہزار بائیس میں فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کرے گا اور اس سے قبل وہاں بڑے پیمانے پر تعمیراتی منصوبے جاری ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ کے مطابق قطر سے ’ورلڈ کپ ورکرز‘ کے حقوق میں مزید بہتری لانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/3L2KV
Kuwait City Demonstration Gasarbeiter
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Qutena

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قطر کے ان منصوبوں کا خیرمقدم کیا ہے، جس کے تحت وہ قریب ایک لاکھ پاکستانیوں کو ورک پرمٹ فراہم کرنا چاہتا ہے۔ تاہم انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ورلڈ کپ ورکرز کے حقوق کا احترام کیا جانا ضروری ہے۔ شاہ محمود قریشی کا برسلز میں نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''ہم اپنے سفارت خانے اور ملازمتیں فراہم کرنے والی ایجنسیوں سے مطالبہ کریں گے کہ کام کرنے کے حوالے سے بہتر شرائط رکھی جائیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم جہاں دیکھیں گے کہ پاکستانی مزدور اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، وہاں ہم ان کا خیال بھی رکھیں گے۔‘‘

فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی ملنے کے بعد قطر نے کم از کم ماہانہ تنخواہ سات سو پچاس ریال مقرر کرنے کا قانون منظور کیا تھا۔ علاوہ ازیں اُس قانون کو بھی ختم کر دیا گیا تھا، جس کے تحت کسی ملازم کو ملک چھوڑنے سے قبل اپنے آجر سے اجازت لینا ہوتی ہے۔

Asiatische Arbeiter in Katar
قطر سن دو ہزار بائیس سے پہلے پہلے ملک میں جاری بہت سے تعیمراتی منصوبوں کو حتمی شکل دینا چاہتا ہےتصویر: DW/A. Vohra

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ یہ اصلاحات خوش آئند ہیں لیکن پاکستان مزید بہتری لانے کا مطالبہ کرے گا۔ ان کا کہنا تھا، '' میرے خیال سے ہیلتھ انشورنس اور اس طرح کے دیگر معاملات کے حوالے سے مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔ ہم ان مسائل کے بارے میں بات چیت کریں گے۔‘‘

قطر سن دو ہزار بائیس سے پہلے پہلے ملک میں جاری بہت سے تعیمراتی منصوبوں کو حتمی شکل دینا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق اور مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں بھی وہاں  ملازمین کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستانی وزیر خارجہ کا مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے دیےجانے والا بیان بھی ایسی رپورٹوں کے حوالے سے ہے، جن میں بار بار کہا گیا ہے کہ وہاں ملازمین کے استحصال کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ رواں برس انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''فوری اصلاحات‘‘ کے باجود بھی مزدوروں کو ملازمت فراہم کرنے والی کمپنیاں ان کا استحصال جاری رکھے ہوئے ہیں اور ایسے زیادہ تر مزدوروں کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے۔

اب بھی ایسی رپورٹیں منظر عام پر آ رہی ہیں جن کے مطابق ملازمین کو تنخواہیں نہیں دی جا رہیں، ان کے پاسپورٹ ان کے آجرین کے پاس ہیں اور کئی مزدور مسلسل  ایک سو اڑتالیس دنوں تک کام کرنے پر مجبور ہیں۔

ا ا / ب ج ( اے ایف پی)