1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ژگ کی قبائلی رسم، چار ہوائی فائر اور خاتون شادی کی پابند

10 ستمبر 2023

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں آج بھی ژگ نامی ایک ایسی قانوناً ممنوعہ قبائلی رسم پر عمل درآمد کیا جاتا ہے، جس میں کوئی لڑکا کسی لڑکی کے گھر کے باہر چار فائر کر دے تو وہ اس لڑکی سے شادی کے لیے دعوے دار بن جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4W1dj
تصویر: DW/D. Babar

اس رسم کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ژگ پر عمل کرتے ہوئے کوئی لڑکا جب کسی لڑکی کے گھر کے باہر چار گولیاں فائر کر دے تو پھر کوئی دوسرا مرد اس لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا۔ اس سارے معاملے میں شادی سے متعلق لڑکی کی اپنی خواہشات کو قطعاً کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس قبائلی رسم کے مطابق جب کسی خاندان کا کوئی مرد کسی دوسرے خاندان سے تعلق رکھنے والی کسی لڑکی سے شادی کے لیے اپنی امیدواری کا اس طرح کا علامتی اعلان کر دے، تو پھر وہ لڑکی اسی گھرانے کے اسی مرد سے شادی کرنے کی پابند ہو جاتی ہے۔

سزا و جرمانہ

پشاور میں خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی نے جنوری 2013 میں ایک قانون منظور کیا تھا، جس کے تحت ژگ کے مرتکب کسی بھی فرد کو تین سال قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانے کی سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔ اس قانون کی موجودگی کے باوجود خیبر پختونخوا کے زیادہ تر قبائلی رسم و رواج والے اضلاع میں آج  بھی ژگ کی مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں۔

Indien Pakistan Symbolbild Vergewaltigung
مجھے ایسی زبردستی کی شادی منظور نہیں، نہ مجھے وہ لڑکا پسند ہے، پری گلتصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma

 

زبردستی کی شادی منظور نہیں، پری گل

ایسی ہی ایک مثال ماضی میں فاٹا کہلانے والے قبائلی علاقوں میں سے ایک علاقے کی رہنے والی ایک ایسی لڑکی کی ہے، جس نے اپنے خاندان کے اسے ژگ کے تحت بیاہ دینے کے ارادوں کے خلاف بغاوت کی اور اپنے بھائی کے ساتھ اپنےآبائی قبائلی علاقے سے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہو گئی۔ اس لڑکی نے اپنی اور اپنے بھائی کی جان کو لاحق خطرات کے باعث ان تفصیلات کی اشاعت کی اجازت دینے سے انکار کر دیا کہ اس کا اصل نام کیا ہے اور اس کا تعلق پاکستان کے کس قبائلی علاقے سے ہے۔

 

'میں بھیڑ بکری نہیں‘

پری گل (فرضی نام) نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ جب سے اپنے بھائی کے ساتھ اسلام آباد منتقل ہوئی ہے۔ اس نے عدالت میں ایک مقدمہ دائر کر رکھا ہے، جس کی سماعت ابھی تک وقفے وقفے سے جاری رہتی ہے مگر جس کا گزشتہ تین برسوں میں کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ پری گل کے بقول، ’’مجھے ایسی زبردستی کی شادی منظور نہیں، نہ مجھے وہ لڑکا پسند ہے اور نہ ہی اس کا گھرانہ۔ اس رشتے سے میرے انکار کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سرفہرست یہ ہے کہ اس نے مجھ پر بدکاری جیسے گندے اور جھوٹے الزامات لگا کر ہمارے سارے علاقے میں مجھے بدنام کیا۔ میرا پورا خاندان پریشان ہے۔‘‘

 

عورت دشمن رسم و رواج

پری گل نے مزید بتایا کہ وہ کئی سالوں سے واپس اپنے علاقے میں نہیں جا سکی ہیں، ’’میں سوچتی ہوں کہ میرا قصور کیا ہے؟ میں نے تو کوئی جرم نہیں کیا۔ میں کوئی بھیڑ بکری تو نہیں کہ جس کا جہاں دل چاہے، باندھ دے۔ مجھے تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا، لیکن میں اغوا ہونے کے خوف سے اسکول نہ جا سکی۔ اب بھی چھپ کر زندگی گزار رہی ہوں۔ مجھے جان سے مار دیے جانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ مجھے اب شدید نفرت ہے اس لڑکے سے بھی اور ایسے تمام عورت دشمن رسم و رواج سے بھی۔ میں زندگی بھر اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھے رہنے کو تیار ہوں لیکن مجھے زبردستی کی یہ مجرمانہ شادی بالکل منظورنہیں۔‘‘

پری گل کے بھائی رستم خان (فرضی نام) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب اس کی بہن کی عمر گیارہ سال تھی، تب سے ہی یہ لوگ رشتے کے لیے اس کے خاندان کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔ انکار ہو جانے پر اس لڑکے نے ان کے گھر کے باہر فائرنگ کی اور کہا کہ لڑکی کو باہر بھیجو کیونکہ اب وہ صرف اسی کی بیوی بنے گی۔

 

بہن کے ساتھ ظلم نہیں ہونے دوں گا

رستم خان نے کہا، "میری بہن بھی ایک جیتی جاگتی انسان ہے، باقی تمام انسانوں کی طرح۔ میں اس کے ساتھ اتنا بڑا ظلم کبھی نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ اہل خانہ سے مشورے کے بعد وہ شکایت کرنے تھانے تک گئے تھے اور ہر ممکن کوشش بھی کی، لیکن پولیس نے ملزم کے خلاف مقدمہ تک درج نہ کیا، ’’اس کے بعد اس کیس کی صرف ایف آئی آر درج کروانے میں ہی مجھے نو ماہ لگے۔ میں تقریباً پورا پاکستان گھوما کہ شاید مجھے کہیں سے کچھ مدد مل سکے۔ پھر بالآخر جب ایف آئی آر درج ہو ہی گئی، تو اس لڑکے اور اس کے بھائی کو جیل ہو گئی۔ لیکن صرف دو ماہ بعد ہی وہ رشوت دے کر پھر باہر آ گئے۔ انہوں نے تو رشوت دے کر بظاہر یہ بھی ثابت کر دیا کہ ان کی ژگ کی کوئی نیت نہیں تھی اور ان کے خلاف الزامات من گھڑت اور جھوٹے تھے۔‘‘

 

قتل کرنے کی کوشش

اپنی بہن پری گل کو ژگ کی صورت میں جرم کا شکار ہو جانے سے بچانے کی طویل اور مسلسل کوششوں کے دوران رستم خان پر دو مرتبہ قاتلانہ حملے بھی کیے گیے۔ رستم خان کے بقول، ’’میں نے دو مرتبہ خود پر ہونے والے ناکام قاتلانہ حملوں کے باوجود آج تک ہمت نہیں ہاری اور میں آخری دم تک اپنی بہن کی زندگی بچانے کی کوشش کرتا رہوں گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اب تین سال سے ملزموں کے خلاف عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہر جگہ رشوت مانگی جاتی ہے اور رشوت نہ دو تو سماعت کے لیے ایک کے بعد ایک نئی تاریخ ڈال دی جاتی ہے، ’’میں سوچتا ہوں کہ جس ملک میں ایک ایف آئی آر درج کرانے میں نو ماہ لگے، وہاں ہمیں انصاف کتنی دہائیوں بعد ملے گا، اگر کبھی مل بھی گیا تو؟‘‘

 

پری گل کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے

پری گل اور رستم خان کے خاندان کے آبائی قبائلی علاقے کی ایک سرکردہ سماجی شخصیت نے ڈی ڈبلیو کی طرف سے رابطہ کیے جانے پر اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کرتے ہوئے بتایا، "جو کچھ (پری گل کے خلاف) ہوا، اس میں کوئی شبہ نہیں۔ اس لڑکی کے ساتھ بہت ناانصافی ہوئی ہے۔ ابھی تک اس کی شادی نہیں ہو سکی۔ ایک جگہ بات طے ہوئی بھی تھی، مگر جن ملزمان کے خلاف مقدمہ زیر سماعت ہے، انہوں نے پری گل پر بدکاری کے الزامات لگا کر اسے اتنا بدنام کیا کہ اس کا یہ رشتہ ہی ٹوٹ گیا۔ قابل مذمت بات یہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں رسوم کے نام پر ایسے مظالم مدتوں سے جاری ہیں اور ایسا صرف ایک مخصوص قبائلی ذہنیت کے حامل افراد کی طرف سے ہی کیا جاتا ہے۔‘‘

 

’غیر انسانی رسوم و روایات‘

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستانی قبائلی علاقوں میں کئی طرح کی غیر انسانی رسوم و روایات ہیں۔ مثلاً لڑکیوں کو غلاموں کے طرح بیچا بھی جاتا ہے۔ پھر گیارہ بارہ سال تک کی عمر کی بچیوں کی شادیاں چالیس پچاس سال یا اس سے بھی زیادہ عمر کے مردوں سے کر دی جاتی ہیں اور ان بچیوں سے پوچھا تک نہیں جاتا۔ اچھی تعلیم سمیت زیادہ تر سہولیات صرف مردوں کو حاصل ہیں۔ لڑکیاں اور عورتیں صرف محکوم ہیں۔ اب زیادہ تر لوگ باشعور ہیں اور اپنی بچیوں کو اچھی تعلیم دلوا کر ان کی رضامندی سے ان کی شادیوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ آج ماضی کے مقابلے میں حالات کافی بہتر ہیں مگر ایسے واقعات ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئے۔‘‘

 

یہ کھلی بدمعاشی ہے، عثمان قاضی

کوئٹہ سے تعلق رکھنے اور اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کے لیے کام کرنے والے معروف ماہر سماجیات عثمان قاضی نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ژگ کی مجرمانہ رسم بنیادی طور پر کھلی بدمعاشی ہے۔ ان کے مطابق یہ روایت صرف قبائلی علاقوں میں ہی نہیں، بلکہ عرصہ پہلے پنجاب میں بھی پائی جاتی تھی۔ اب لیکن اس کا زیادہ زور خیبر پختونخوا میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان فرسودہ روایات سے بچنے کے لیے اشد ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون کی بالا دستی اور عمل داری کو مضبوط کیا جائے۔

’گھناؤنا جرم‘

 عثمان قاضی کے مطابق، ’’ژگ بہت گھناؤنا جرم ہے۔ اس کے تدارک کے لیے قانون سازی کی تو گئی تھی لیکن اس قانون کے نفاذ کو بہتر بنانے اور مجرموں کو سخت تر سزائیں سنانے کی ضرورت ہے۔ جن مظلوم بچیوں کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں اور جن کے والدین ان کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی نہیں بنا پاتے، ان کے لیے ملک میں محفوظ مقامات ہونا چاہییں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کچھ سرکاری ادارے کام تو کر رہے ہیں، جن میں سرفہرست دارالامان ہے، لیکن ایسے اداروں میں بھی بچیوں اور خواتین کے ہراساں کیے جانے کے واقعات کے بعد ان کے محفوظ ہونے پر سوالیہ نشان لگ چکے ہیں۔ میری رائے میں اس شعبے میں غیر سرکاری تنظیمیں بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔‘‘

 

قانون پر عملدرآمد نہیں ہو رہا

پاکستان میں ایسی عورتوں اور لڑکیوں کی صورت حال کے بارے میں عورت فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر ایڈووکیسی رابعہ ہادی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''عورت فاؤنڈیشن نے اپنی پالیسی کے مطابق ژگ جیسے غیر انسانی فعل کے خلاف قانون بنوایا، لیکن اصل مسئلہ اس قانون پر عمل درآمد اور اس کے احترام  کا ہے۔‘‘

رابعہ ہادی نے بتایا، ’’جب ایسا کوئی جرم ہوتا ہے، تو اول تو اس کیس کو رجسٹر ہی نہیں کیا جاتا اور کوئی ایف آئی آر نہیں لکھی جاتی۔ اگر ایسا ہو بھی جائے، تو عدالتی فیصلہ سنائے جانے کے بعد بھی فریقین فیصلہ ماننے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ وہ ایک دوسرے کو جانی اور مالی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے اب تک صرف ایک کیس ایسا دیکھا ہے، جس میں باقاعدہ ایف آئی آر درج ہوئی اور معاملہ عدالت تک پہنچا۔ ورنہ یہ سب کچھ تو قبائلی روایات ہی کا حصہ ہے۔ قبائلی باشندے اپنے فیصلے جرگوں میں کرتے ہیں اور کسی قانون کو نہیں مانتے۔‘‘

 

’اس صدی میں اس روایت کا ہونا تشویش ناک بات ہے‘

پاکستانی قبائلی علاقوں میں عورت دشمن جرائم کے طور پر ژگ کتنا سنگین مسئلہ ہے، اس بارے میں پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن (ایچ آر سی پی) کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج اکیسویں صدی میں بھی اس قسم کے مجرمانہ واقعات کی خبریں ملنا انتہائی تشویش ناک بات ہے۔

حارث خلیق نے بتایا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں ژگ کے بارے میں علیحدہ سے تو کوئی تحقیق نہیں کی گئی تاہم یہ مسئلہ ایچ آر سی پی کی نظر میں ہے اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ایسے ناجائز، مجرمانہ اور غیر انسانی اقدامات کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا واضح موقف ہے کہ ایسی فرسودہ اور مجرمانہ روایات کی کسی بھی مہذب معاشرے میں کوئی گنجائش ہو ہی نہیں سکتی۔ اس لیے ہم ژگ کے حوالے سے جلد ہی باقاعدہ تحقیق کے بعد عملی اقدامات کے لیے اپنی تجاویز اور مطالبات پیش کریں گے۔‘‘

عورت مارچ سے اس خاتون کا بھلا کیا فائدہ ہو گا؟