1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹاگرام سروسز بحال

5 اکتوبر 2021

دنیا بھر میں فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹا گرام کی سروسز تقریباً سات گھنٹے تک بند رہنے کے بعد اب بحال ہونا شروع ہوگئی ہیں۔اس دوران کروڑوں صارفین کو مشکلات کا سامنا رہا اور اس کو اب تک کی سب سے بڑی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/41GKK
Störung | WhatsApp, Facebook und Instagram
تصویر: Revierfoto/dpa/picture alliance

فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹاگرام سروسز بحال

ویب سائٹ مانیٹر کرنے والے گروپ ڈاؤن ڈیٹیکٹر کے مطابق سروسز میں یہ رکاوٹ اب تک کی ایسی سب سے بڑی ناکامی ہے۔

دنیا بھر میں فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹا گرام کی سروسز تقریباً سات گھنٹے تک بند رہنے کے بعد اب بحال ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ اس دوران کروڑوں صارفین کو مشکلات کا سامنا رہا اور اس رکاوٹ کو اب تک کی سب سے بڑی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا ایپس فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹاگرام نے پیر کی دیر رات کو کام کرنا بند کر دیا۔ ابتدا میں معمولی تکنیکی خامی سمجھی جانے والی یہ خرابی دھیرے دھیرے پوری دنیا میں پھیل گئی اور فیس بک کو اپنے صارفین سے معافی مانگنی پڑی۔ گوکہ فیس بک کے تمام پلیٹ فارم بظاہر اب کام کرنے لگے ہیں تاہم اس کے ایک سابق ملازم کے انکشافات نے اس امریکی کمپنی کی پریشانیاں بڑھادی ہیں۔

مارک زکربرگ کی معذرت

فیس بک کی سروسز بحال ہونے کے بعد مارک زکربرگ نے دنیا بھر میں سروسز بند ہوجانے پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ زکر برگ نے اس کی کوئی وضاحت نہیں کی کہ ایسا کیوں ہوا۔ انہوں نے صرف اتنا کہا،”فیس بک، انسٹا گرام، واٹس ایپ اور میسنجر دوبارہ آن لائن ہوگئی ہیں۔ رخنہ کے لیے معذرت۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ جن افراد کو چاہتے ہیں ان کے ساتھ جڑے رہنے کے لیے ہماری خدمات پر کتنا بھروسہ کرتے ہیں۔"

 ڈیٹا سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں

فیس بک نے کہا کہ حالانکہ ہم ابھی تفتیش کر رہے ہیں لیکن اب تک ایسا کوئی ثبوت نہیں جس سے یہ کہا جا سکے کہ سروسز کے بند ہونے کے دوران صارفین کے ڈیٹا سے کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ کی گئی ہو۔

واٹس ایپ کے آپریشنزکے سربراہ ول کیتھ کارٹ نے وعدہ کیا کہ کمپنی پیر کے روز کے واقعے سے ”سبق لے گی اور خود کو بہتر بنائے گی۔" انہوں نے ایک پوسٹ میں لکھا،”ہمارے پاس پورا بیک اپ موجود ہے اور اب یہ کام کرنے لگا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ واٹس ایپ استعمال کرنے والے افراد کو اپنے دوستوں، خاندان، تجارت، کمیونٹی گروپ سے رابطہ کرنے میں پریشانی ہوئی۔ یہ ہمارے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ لوگ ہماری تنظیم اور ہمارے ایپ پر کتنا بھروسہ کرتے ہیں۔“

ساڑھے تین ارب صارفین متاثر

فیس بک، انسٹاگرام،میسنجر اور واٹس ایپ کے کام نہیں کرنے کی وجہ سے انہیں استعمال کرنے والے تقریباً ساڑھے تین ارب صارفین متاثر ہوئے۔

فیس بک کی سروسز بند ہوجانے سے اس کے شیئرز میں تقریباً پانچ فیصد کی گراوٹ آگئی اور اس کے مالک مارک زکربرگ کو لگ بھگ سات ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

کیا ہوا، کیسے ہوا؟

فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹاگرام ان تینوں سروسز کا مالک فیس بک ہے۔ دنیا بھر میں انٹرنیٹ پر نگاہ رکھنے والے ادارے ڈاون ڈیٹیکٹر کا کہنا ہے کہ یہ فیس بک کو درپیش اب تک کا سب سے بڑ امسئلہ تھا۔ یہ مسئلہ اتنا سنگین تھا کہ کچھ لوگوں نے فیس بک کے دیگر ایپس مثلاً آئیکیولس میں بھی پریشانی کی بات کہی۔ پوکی مان گو جیسے ایپ بھی مسائل کا شکار ہوگئے جن میں لا گ ان کرنے کے لیے فیس بک کی ضرورت ہوتی ہے۔

گوکہ ابھی باضابطہ یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ پریشانی کیوں پیش آئی لیکن بعض سافٹ ویئر ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ ڈی این ایس یعنی ڈومین نیم سسٹم ہوسکتا ہے، جو انٹرنیٹ کے لیے ایڈریس بک جیسا ہوتا ہے۔ اس برس دنیا کی کئی بڑی ویب سائٹوں کو ڈی این ایس مسئلے کی وجہ سے بند ہوجانے کی پریشانی اٹھانی پڑی تھی۔

پیر روز آنے والی پریشانی سے قبل سن 2019 میں فیس بک بڑے پیمانے پر بند رہا تھا۔ اس وقت اس کے ایپ 14گھنٹے بند رہے تھے۔  اس وقت فیس بک نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا تھا کہ روزمرہ کی مرمت کے دوران ان کے سسٹم میں مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔

Facebook Whistleblower Frances Haugen
فرانسس ہاؤگنتصویر: Robert Fortunato/CBS News/60 Minutes via AP/picture alliance

فیس بک کے لیے ایک اور مصیبت

فیس بک میں یہ تعطل اس واقعے کے ایک روز بعد آیا جب ایک خاتون نے امریکی ٹیلی ویژن پر اپنی شناخت ظاہر کی اور حکام کو کئی دستاویزات فراہم کیں جن میں الزام لگایا کہ سوشل میڈیا کمپنیز کو معلوم ہے کہ ان کی مصنوعات نفرت کو ہوا دے رہی ہیں اور بچوں کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

ڈیٹا سائنٹسٹ 37 سالہ فرانسس ہاؤگن فیس بک میں پروڈکٹ منیجر کے طور پر کام کرتی تھیں۔ وہ دیگر انٹرنیٹ کمپنیوں میں بھی کام کرچکی ہیں۔ انہوں نے سی بی ایس کے شو'60 منٹ‘ کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے اس سال کے اوائل میں کمپنی چھوڑ دی تھی کیونکہ وہ عاجز آگئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فیس بک تحفظ فراہم کرنے سے کہیں زیادہ توجہ اپنی ترقی پر دیتی ہے اور فیس بک سے زیادہ بدتر پلیٹ فارم انہوں نے اس سے قبل نہیں دیکھا۔ 

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں