1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوجی عدالتوں کے خلاف گزشتہ فیصلے کی معطلی تنقید کی زد میں

13 دسمبر 2023

پاکستانی سپریم کورٹ کی طرف سے فوجی عدالتوں کو خلاف قانون قرار دینے کے گزشتہ فیصلے کی معطلی کئی حلقوں میں زیر تنقید ہے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ یہ نیا فیصلہ اسے ہدف بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4a7KU
اسلام آباد میں پاکستانی سپریم کورٹ کی عمارت
اسلام آباد میں پاکستانی سپریم کورٹ کی عمارتتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

دوسری طرف پاکستانی وکلاء برادری نے بھی ملکی سپریم کورٹ کے اس نئے فیصلے پر مایوسی ظاہر کی ہے۔ پاکستانی سپریم کورٹ کے ایک چھ رکنی بینچ کی طرف سے آج بدھ تیرہ دسمبر کو سنائے جانے والے اس فیصلے کو کئی حلقے قانون اور آئین کی روح کے خلاف قرار دے رہے ہیں اور انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے سپریم کورٹ کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچے گا اور فوجی عدالتوں کی بحالی کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔

سپریم کورٹ کی کارروائی

پاکستان میں ملٹری کورٹس کے خلاف اپیلوں کی سماعت سپریم کورٹ کے ایک چھ رکنی بینچ نے کی، جس کی صدارت جسٹس سردار طارق مسعود کر رہے تھے۔ دیگر اراکین میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سادات خان شامل تھے۔

گوہر خان پاکستان تحریک انصاف کے نئے سربراہ منتخب

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اس سال نو مئی کو پاکستانی فوج کی تنصیبات پر حملے میں مبینہ طور پر جو 103 شہری ملوث ہیں، ان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل جاری رہے گا۔ ان فوجی عدالتوں کو غیر آئینی قرار دیے جانے کے خلاف اپیل وزارت دفاع، حکومت خیبر پختونخوا، حکومت بلوچستان اور حکومت پنجاب کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت نے دائر کی تھی۔

آج بدھ کے دن جب عدالتی کاروائی شروع ہوئی، تو بینچ کی تشکیل کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے گئے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ اور چوہدری اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھایا اور جسٹس طارق مسعود سے کہا کہ وہ اس بینچ سے خود کو علیحدہ کر لیں۔ تاہم جسٹس طارق مسعود نے ایسا نہ کیا۔

عمران خان نے گوہر خان کو عبوری پارٹی سربراہ نامزد کر دیا

پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی رہنما عمران خان
پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ نیا فیصلہ عمران خان اور ان کی اس پارٹی کو ہدف بنانے کے لیے کیا گیا ہےتصویر: Mohsin Raza/REUTERS

فوجی عدالتوں کی بحالی کے حوالے سے خدشات

پاکستانی وکلاء برادری کے کچھ رہنماؤں کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے ایسا لگتا ہے کہ ملک میں فوجی عدالتیں بحال کر دی جائیں گی۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسویشن کی نائب صدر ربیعہ باجوہ ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جس تیزی سے گزشتہ فیصلے کی معطلی کا یہ حکم نامہ جاری ہوا ہے، اس سے بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں جسٹس انوارالحق سے کہا گیا تھا کہ وہ خود کو اس بینچ سے علیحدہ کر لیں۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا تھا اور فیصلے میں ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنا دی گئی تھی۔ اب جسٹس سردار طارق مسعود سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس بینچ سے علیحدہ کر لیں، لیکن انہوں نے بھی ایسا نہیں کیا بڑی عجلت میں معطلی کا فیصلہ سنا دیا۔‘‘

پی ٹی آئی کا مصالحانہ رویہ: صلح صفائی یا این آر او؟

ربیعہ باجوہ کے مطابق اس عجلت سے یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ حالات اسی طرف جا رہے ہیں کہ ملٹری کورٹس کو بحال کر دیا جائے گا، ''اور ایسا لگتا ہے کہ عدالت عوام کو ذہنی طور پر اس بحالی کے لیے تیار کر رہی ہے۔‘‘

’افسوس ناک ریمارکس‘

ربیعہ باجوہ کا کہنا تھا کہ بینچ کی طرف سے ایسے بھی ریمارکس آئے کہ ہر معاملے میں انسانی حقوق کہاں سے آ جاتے ہیں۔ ''یہ انتہائی افسوس ناک ریمارکس ہیں۔ ان حقوق کا آئین میں ذکر ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ بینچ کی تشکیل پر اگر اعتراض ہو، تو متعلقہ جج خود کو اس بینچ سے علیحدہ کر لے۔ آئین کا آرٹیکل 10 منصفانہ ٹرائل کی گارنٹی دیتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف سپریم کورٹ ذوالفقار علی بھٹو کو بعد از موت انصاف دینے کے لیے ریفرنس سننے جا رہی ہے تو دوسری طرف عجلت میں کیے گئے فیصلوں کے ذریعے ایک دوسرے منتخب وزیر اعظم کے ساتھ ناانصافی کی تیاری کی جا رہی ہے۔‘‘

جسٹس اطہر من اللہ کا اضافی نوٹ: تنقید بھی، تعریف بھی

عمران خان پاکستان میں آخر اتنے مقبول کیوں ہیں؟

’ٹارگٹ پی ٹی آئی‘

پاکستان میں اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے ہزاروں کارکن اور رہنما پابند سلاسل ہیں۔ فوجی عدالتوں میں جن 103 افراد کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں، ان کے بارے میں بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق تحریک انصاف یا پی ٹی آئی سے ہے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کے ایک متعمد خاص فیصل شیر جان کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو خدشہ ہے کہ یہ معطلی بنیادی طور پر پی ٹی آئی کو ٹارگٹ بنانے کے لیے ہی کی گئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یقیناﹰ اس فیصلے کا مقصد نواز شریف کو ٹارگٹ کرنا تو نہیں۔ اس کا مقصد عمران خان اور پی ٹی آئی کی قیادت کو ٹارگٹ کرنا ہے۔‘‘

سویلین افراد فوجی عدالتوں میں کیوں؟

فیصل شیر جان کے مطابق قوی امکان یہ ہے کہ فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹرز پر حملے کے حوالے سے جو ''بوگس کیس‘‘ رجسٹر ہوا ہے، اس کی سماعت بھی اب کوئی فوجی عدالت ہی کرے گی۔ ''اسی طرح کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کے حوالے سے مقدمات کو بھی انہی کینگرو کورٹس میں سنا جائے گا۔‘‘

ادھر پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی بہن علیمہ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت جلد از جلد سزائیں دینا چاہتی ہے اور عمران خان اب بحال ہو جانے والی فوجی عدالتوں کا ممکنہ طور پر مرکزی ہدف ہوں گے۔‘‘

عمران خان گرفتار، عوام سے احتجاج کی اپيل