فوجی احکامات نا منظور، مصری سیاسی جماعتیں
3 نومبر 2011مصر میں پارلیمانی انتخابات کے لیے مختلف حلقے متحرک ہو چکے ہیں۔ اسلامی تنظیموں کے مخالفین نے اس نعرے کے ساتھ اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا ہے کہ یہ ’مصر کے مستقبل کے حوالے سے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔‘ جدید مصر کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہو گا کہ عوام کسی سیاسی جماعت کو اقتدار کے لیے منتخب کریں گے۔ سابق صدر حسنی مبارک کی معزولی کے بعد سے ہی مصر میں اسلامی تنظیموں اور سیکولر جماعتوں نے اقتدار میں آنے کے حوالے سے منصوبہ بندی کرنا شروع کر دی تھی۔
جمہوریت پسندوں کو خوف ہے کہ منتخب ہونے والی نئی پارلیمان پر فوج اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی کوشش کرے گی اور مستقبل میں مصری صدر آرمی یا ایئر فورس کا کوئی ایسا سابق افسر ہو سکتا ہے، جسے حسنی مبارک کے خلاف چلنے والی تحریک کے دوران اس کے عہدے سے ہٹایا گیا ہو۔ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے سابق سربراہ اور صدارتی امیدوار محمد البرادئی کا کہنا ہے کہ فوج ریاست سے بالاتر ادارہ نہیں ہے اور نہ ہی مصر میں ایسا ہونے دیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ فوج کی سرپرستی والی اور منتخب جمہوری حکومت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
حسنی مبارک کے بعد فوج نے اقتدار عوام کو منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا اور وہ ابھی بھی اس وعدے پر قائم ہے۔ تاہم بہت سے حلقوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مصری فوج اقتدار میں آنے والی حکومت کے تانے بانے اپنے ہاتھوں میں رکھنے کی کوشش کرے گی۔ اس کی مثال اسی ہفتے ہونے والا ایک اجلاس ہے۔ اس میں اسلامی اور لبرل جماعتوں کے نمائندوں نے اس وقت واک آؤٹ کر دیا، جب نائب وزیر اعظم نے نئے آئین کی تیاری کے حوالے سے ایک پرچہ تقسیم کیا۔ اس پر تحریر تھا کہ نئے آئین میں فوج کو منتخب حکومت کو تحلیل کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔
بدھ کو ہونے والے ایک اجلاس میں صدارتی امیدواروں کے ایک گروپ نے مطالبہ کیا کہ فوج سنجیدگی سے اقتدار عوام کے سپرد کرنے کی اپنی حکمت عملی کا فوری اعلان کرے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اگر 18ومبر تک ان کے مطالبات تسیلم نہ کیے گئے تو جرنیلوں کے خلاف ملین مارچ شروع کیا جائے گا۔ مصر میں 28 نومبرکو پارلیمانی انتخابات کا سلسلہ شروع ہو کر مارچ 2012ء تک جاری رہے گا۔ اس دوران ملک کے مختلف حصوں میں الیکشن کے لیے مختلف تاریخوں کا اعلان کیا گیا ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق / خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک