فلسطین نئے اتحادیوں کی تلاش میں
19 ستمبر 2020رواں ہفتے کے آغاز پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے وزرائے خارجہ سے واشنگٹن میں ملاقات کی تاکہ ان ممالک کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے پر دستخط کیے جائیں۔ اس معاہدے پر دستخط ہوتے ہی غزہ پٹی سے اسرائیل کی جانب پندرہ راکٹ داغے گئے۔ اسرائیلی فضائیہ نے غزہ ميں حماس کے مختلف فوجی اہداف پر حملے کرتے ہوئے جوابی کارروائی بھی کی۔
اس دوران مغربی کنارے میں فلسطینیوں نے امارات اور بحرین کے ساتھ اسرائیلی معاہدے پر زیادہ تر پر سکون انداز میں رد عمل ظاہر کيا۔ راملہ میں جرمنی کی کونراڈ آڈے ناؤر فاؤنڈيشن کے سربراہ اسٹیون ہؤفنر کے مطابق راملہ میں لگ بھگ 150 افراد پر مشتمل چھوٹے مظاہرے کیے گئے جبکہ پورے علاقے میں سینکڑوں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ ہؤفنر کے بقول، ’’زیادہ تر فلسطینی یہ محسوس کرتے ہیں کہ عرب دنیا فلسطینی عوام کی پرواہ نہیں کرتی۔‘‘
مثال کے طور پر عرب لیگ کے آخری سربراہی اجلاس کے دوران اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین ہونے والے معاہدے کی مذمت کرنے یا نہ کرنے پر بات چيت ہوئی۔ حالانکہ فلسطینیوں نے اس کی مذمت کے لیے عرب لیگ پر زور دیا تھا۔ ہؤفنر نے کہا، ’’اس سے فلسطینیوں کے درمیان احساس تنہائی میں مزید اضافہ ہوا۔‘‘
ایران کی حمایت
تاہم ایرانی صدر حسن روحانی نے امارات-بحرین-اسرائیل معاہدے پر بھرپور تنقید کی۔ صدر روحانی نے حال ہی میں متحدہ عرب امارات اور بحرین سے پوچھا، ’’آپ کا عرب اِزم کہاں ہے، فلسطین میں ہونے والے [اسرائیلی] مبينہ جرائم کے بارے میں آپ کے تحفظات کہاں ہیں اور اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ آپ کی یکجہتی کہاں ہے؟‘‘
ایران کے مؤقف کے بارے میں فلسطین کے مختلف علاقوں میں الگ الگ رائے پائی جاتی ہے۔ ہؤفنر کے مطابق، مغربی کنارے میں یہ بات اہم نہیں کہ ایران کیا کہہ رہا ہے، لیکن غزہ پٹی میں حماس اور اسلامک جہادی تحریک کے حمایتی ایران کے ساتھ اتحاد یا پھر قریبی تعلقات کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیل اور خلیجی ممالک، صدر ٹرمپ کا تھیٹر
مغربی کنارے کے رہائشیوں کی ایران کے ساتھ قریبی تعلقات ميں ہچکچاہٹ کی وجہ مذہبی حکومت ہے۔ عرب دنیا میں مذہبی حلقوں کی حکومتی انتظام میں عمل دخل کے حوالے سے رائے انتہائی منقسم ہے۔ اور پھر، ایران کی طرف قدم بڑھانے سے اس بات کا خدشہ ہوگا کہ امریکا انتقامی کارروائی میں فلسطینیوں پر بالواسطہ یا بلاواسطہ دباؤ ڈال سکتا ہے۔
یورپی یونین کے رکن ممالک بھی فلسطین کے ایران کی جانب جھکاؤ کو مسترد کر دیں گے۔ اگر دونوں فریق اسرائیل کے خلاف اتحاد قائم کرتے ہیں تو خاص طور پر جرمنی اس پر ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔
ترکی کے ساتھ جوکھم بھری شراکت داری
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اپنی طرف سے بحرین اور اسرائیل کے مابین طے ہونے والے معاہدے پر نقطہ چینی کی کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ترک صدر کے بقول، ’’[یہ فیصلہ] اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف غیر قانونی کارروائیوں کو جاری رکھنے کی ترغیب دے گا۔‘‘ اس سے قبل، ایردوآن نے متحدہ عرب امارات کے خلاف بھی اسی طرح کی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مشرق وسطی کے لوگ امارات کے ’منافقانہ سلوک‘ کو کبھی ’نہیں بھولیں گے۔‘
فلسطینی علاقوں میں تہران کے مقابلے میں انقرہ کی بیان بازی کا زیادہ اثر دکھائی دے رہا ہے۔ ہؤفنر کے مطابق فلسطین میں بہت سے لوگ ترکی سے امیدیں وابستہ کر رہے ہیں اور ترکی کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھتے ہیں جو مسئلہ فلسطین کو مؤثر انداز میں پیش کرنے کی سیاسی وقعت رکھتا ہے۔
مزید پڑھیے: سعودی عرب، امام کعبہ اور اسرائیل سے متعلق بدلتا موقف
لیکن فی الحال ترکی کو خارجی سطح پر مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ وہ ایک طرف بحیرہ روم میں قدرتی گیس کے ذخائر پر یونان سے تنازعے میں گھرا ہوا ہے تو دوسری جانب شمالی شام میں کرد تنظیموں سے لڑ رہا ہے اور لیبیا میں اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ وزیراعظم فائز سراج کے ساتھ مل کر لڑائی میں بھی شامل ہے۔ لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا ترکی میں میں اتنی صلاحیت باقی ہے کہ وہ اپنا وزن فلسطینیوں کے پیچھے ڈال سکے۔ اس کے علاوہ یورپی یونین بھی ترکی- فلسطین اتحاد پر ابہام کا شکار رہے گی۔
قطر اور روس سے امیدیں
مشرق وسطیٰ میں بدلتے ہوئے طاقت کے توازن کے پیش نظر فلسطینی عوام یہ امید کر رہے ہیں کہ روس اور قطر مسئلہ فلسطین کے حل میں کردار ادا کرسکیں گے۔ لیکن، ماسکو اور تل ابیب کے درمیان پہلے سے ہی دوستانہ تعلقات قائم ہیں، دونوں ملکوں کی فوج شامی علاقوں میں کافی سرگرم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کے لیے تکنیکی اور اسٹریٹجک سطح پر قریبی تعاون کو برقرار رکھنا لازمی ہے۔ اس صورتحال میں فلسطينی حلقوں میں يہ امید پائی جاتی ہے کہ روس اسرائیل کے ساتھ بہتر تعلقات کے تحت فلسطینیوں کے مفاد میں کردار ادا کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیل اور مراکش کے درمیان براہ راست پروازوں کا جلد آغاز ہوگا، اسرائیلی میڈیا
دوسری جانب قطر نے ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ مشاورت کے تحت اپنی طرف سے غزہ پٹی میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ ہؤفنر کے بقول، ’’بہت سے فلسطینیوں کی نظر میں قطر کی یہ شمولیت، اس کو مستقبل میں اسرائیل کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں ایک ممکنہ ثالث بنا سکتی ہے۔‘‘ تاہم ، اب تک، یہ امیدیں ادھوری ہیں۔
سعودی عرب، ایک حلیف تھا
بہت سے فلسطینی ایک طویل عرصے سے سعودی عرب کو ایک قابل اعتماد حلیف سمجھتے تھے۔ سعودی بادشاہ شاہ سلمان برسوں سے فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ امکان خارج نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے بیٹے اور تخت کے وارث ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان فلسطین کی حمایت میں اسی مؤقف کو برقرار رکھیں گے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے متعدد گفتگو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینئر مشیر جیرڈ کُشنر کو اشارہ دیا کہ انہوں نے اسرائیل - عرب تعلقات کو معمول پر لانے ميں کردار ادا کيا ہے۔ فی الوقت، سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کی کھلی شراکت داری کرنے سے گریز کیا ہے۔
فلسطینی سینٹر فار پیس اینڈ سروے ریسرچ کے حالیہ سروے کے مطابق 80 فیصد فلسطینیوں کے خیال میں سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات کو اسرائیل کےساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے بڑھاوا دیا تھا جبکہ 82 فیصد رائے دہندگان سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب بھی بہت جلد اس معاہدے کی پیروی کرے گا۔
فلسطین میں سیاسی اصلاحات کی ضرورت
فلسطینی سیاسی جماعت فتح، مغربی کنارے پر حکومت کرتی ہے جبکہ غزہ کا کنٹرول حماس کے پاس ہے۔ دونوں فلسطینی علاقوں کے لیے متحدہ قیادت کے قیام کے لیے اپنے اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاسی اصلاحات اور پارلیمانی انتخابات میں تاخیر کے ساتھ اس مقصد کے حصول میں بہت زیادہ وقت لگے گا۔ فلسطین میں آخری انتخابات 2006 میں منعقد ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: نیتن یاہو کا ’فلسطینیوں سے امن بات چیت کا کوئی ارادہ نہیں‘
راملہ میں فتح سے منسلک مقامی اخبار ال ایام میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق فلسطینیوں کو عرب دنیا میں دوبارہ اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے آپسی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا۔ اس اخبار نے لکھا، ’’ہمارے اختلافات کچھ ممالک کو ہمارے مؤقف سے دستبردار ہونے اور فلسطینی عوام کے مفادات کے برعکس کام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ساتھ مضمون میں خبردار کیا گیا، ’’اگر ہم اس رجحان کو روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں خود سے آغاز کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر ہم اور بھی اثر و رسوخ کھو دیں گے اور خود کو تنہا کردیں گے۔‘‘
کیرسٹن کِنپ / عرفان آفتاب