فسادات کے شکار ضلع کرم میں فضائی راستے سے امداد کی فراہمی
17 دسمبر 2024خیبر پختونخوا میں فرقہ وارانہ فسادات کے شکار ضلع کرم میں پھنسے ہوئے ہزاروں افراد کے لیے ہنگامی فضائی امداد فضائی راستے آج سترہ دسمبر بروز منگل پاڑا چنار پہنچا دی گئی۔ اس دور دراز پہاڑی علاقے میں جاری فرقہ وارانہ جھڑپوں میں جولائی سے لے کر اب تک 200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
افغانستان کی سرحد سے متصل ضلع کرم کے کچھ حصوں میں رہائشیوں نے خوراک اور ادویات کی شدید قلت کی اطلاع دی ہے، جہاں حکومت زرعی زمینوں پر کئی دہائیوں پرانی کشیدگی سے پیدا ہونے والے سنی اور شیعہ مسلمانوں کےمابین دوبارہ شروع ہونے والے جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ فضائی راستے سے امداد پاڑا چنار پہنچنے کےبعد نجی فلاحی تنظیم ایدھی کے ڈائریکٹر فیصل ایدھی نے کہا،''دو مریضوں کو جنہیں فوری سرجری کی ضرورت ہے، واپس پشاور شہر پہنچایا جائے گا۔‘‘
ان کا مزیدکہنا تھا کہ ہفتے بھر میں ''مزید پروازیں واپس آتی رہیں گی۔‘‘ ایدھی کا کہنا تھا کہ ادویات بھی فراہم کی جائیں گی۔ اس علاقے میں لڑائی کا تازہ ترین دور شروع ہونے کے بعد سے مختلف مواقعوں پر جنگ بندی کا اعلان کیا گیا ہے، دونوں فریقین کے عمائدین ایک دیرپا معاہدے پر بات چیت بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حکومت نے تشدد کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش میں نومبر سے ضلع کے اندر اور باہر کی اہم سڑکوں کو بند کر دیا ہے۔ یہ بندش علاقے کے رہائشیوں کو لے جانے والے ایک سکیورٹی قافلے پر حملہ میں 40 سے زیادہ افراد کی ہلاکت کے بعد سے جاری ہے۔ کرم میں پھنسے ایک رہائشی منور حسین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''روڈ بلاک ہونے کی وجہ سے نظام درہم برہم ہے، خوراک کی کمی ہے اور زخمی شدید تکلیف میں ہیں۔‘‘
ایک اور رہائشی شاہد کاظمی نے عمائدین کی کونسل کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا، ''کئی دنوں سے جاری جرگے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، جس سے مقامی لوگوں میں مایوسی پھیل گئی ہے۔‘‘ علاقے میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔ شیعہ کمیونٹی کے ارکان کو خاص طور پر مشکلات کا سامنا ہے، کیونکہ ضروری خدمات تک پہنچنے کے لیے انہیں سنی اکثریت والے محلوں سے گزرنا ہو گا۔
21 نومبر سے اب تک جاری جھڑپوں میں کم از کم 133 افراد ہلاک اور 177 زخمی ہو چکے ہیں۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے کہا کہ جولائی اور اکتوبر کے درمیان خطے میں 79 افراد مارے گئے۔ کرم 2018ء سے پہلے وفاق کے زیر انتظام نیم خود مختار قبائلی علاقوں کا حصہ تھا، پھر اسے دیگر قبائلی علاقوں کے ہمراہ خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا تھا۔ یہاں انتظامیہ کو ہمیشہ سے امن وامان کے قیام میں دشواریوں کا سامنا رہا ہے۔
اس ناہموار پہاڑی علاقے میں عام طور پر لڑائیاں زمین کے تنازعات کی وجہ سے شروع ہوتی ہیں اور پھر شیعہ سنی تنازعے میں بدل جاتی ہیں۔
ش ر ⁄ ک م (اے ایف پی)