1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’فرينکفرٹ پوليس ميں انتہائی دائيں بازو کا انتہا پسند گروہ‘

17 دسمبر 2018

جرمنی ميں جرائم سے نمٹنے والی رياستی سطح کی پوليس (LKA) کے حکام انتہائی دائيں بازو کے ايک ايسے انتہا پسند گروہ کے بارے ميں تفتيش کر رہے ہيں، جس کے بارے ميں شبہ ہے کہ اس کے ارکان فرينکفرٹ کی پوليس فورس کا حصہ ہيں۔

https://p.dw.com/p/3AEit
Symbolbild Cyberkriminalität
تصویر: picture-alliance/dpa/O.Berg

اس بارے ميں رپورٹ ’فرينکفرٹ الگمائنے زائيٹنگ‘ ميں اتوار کے دن چھپی۔ ايل کے اے نے صوبہ ہيسے ميں ايک خصوصی تحقيقاتی گروپ تشکيل ديا ہے، جو اس معاملے کی تفتيش کرے گا۔ حکام کو شبہ ہے کہ چند آفيسرز نے ايک ترک نژاد وکيل کو ایک متنازعہ خط بھيجا۔ سيدا باسے يلديز بعض مسلم انتہا پسندوں کے مقدمات کی پیروی کر چکی ہیں۔ انہيں جو خط بذریعہ فيکس بھيجا گيا، وہ توہين آميز تھا اور اس ميں کہا گيا ہے، ’تم جرمنی کو برباد نہيں کرو گی۔ يہاں سے دفع  ہو جاؤ جب تک زندہ بچ کر نکل سکتی ہو۔‘

اس بارے ميں ’فرينکفرٹر نوئے پريسے‘ سے بات چيت کرتے ہوئے يلديز نے بتايا کہ انہيں دھمکيوں والے اور توہين آميز خطوط پہلے بھی موصول ہوتے رہے ہيں ليکن وہ اس بارے ميں فکرمند ہيں کہ مستقبل ميں کيا ہو گا۔ يلديز کو لکھے گئے خط ميں یہ بھی تحریر ہے، ’ردعمل ميں ہم تمہاری بيٹی کو قتل کر ديں گے۔‘ اس دھمکی کے بعد خاتون وکيل کی بيٹی کا مکمل نام اور پتہ درج ہے اور پھر اين ايس يو ٹو‘ لکھا ہے۔ يہ اسی نيو نازی گروہ کا نام ہے، جو سن 2000 کی دہائی ميں سرگرم تھا اور ترک نژاد يا غير ملکيوں کے قتل ميں ملوث تھا۔ يلديز نے اخبار کو بتايا کہ ان کی دو سالہ بيٹی کا نام اور اس کا پتہ عوامی دسترس میں نہيں۔

 يہ دھمکی اور توہين آميز خط رواں سال اگست ميں يلديز کو بھيجا گيا تھا۔ ابتدائی تفتيش سے پتہ چلا کہ اس کارروائی ميں کم از کم پانچ پوليس افسران ملوث ہو سکتے ہيں۔ مشتبہ افراد ايک نجی بات چیت ميں نيو  نازی پيغامات اور تصاوير کا تبادلہ کرتے رہے تھے، جو کو جرمنی ميں ايک سنگين جرم ہے۔ تفتيش کاروں کو اس بارے ميں پتہ ايسے چلا کہ پوليس کے دفتر ميں ايک کمپيوٹر کو بغير کسی وجہ يلديز کی ذاتی معلومات تک رسائی کے ليے استعمال کيا گيا تھا۔

جرمنی ميں جرائم سے نمٹنے والی رياستی سطح کی پوليس (LKA) کے مطابق اس کيس کا دائرہ کار کافی وسيع ہو سکتا ہے۔ متعلقہ پانچوں پوليس اہلکاروں، جن ميں چار مرد اور ايک عورت شامل ہيں، کو ان کی ملازمت سے فی الوقت الگ کر ديا گيا ہے۔

يلديز اس بارے ميں ناخوش ہيں کہ پوليس نے انہيں تازہ پيش رفت سے آگاہ نہيں کيا بلکہ انہيں يہ معلومات ذرائع ابلاغ کے ذريعے ملی ہیں۔ وہ کہتی ہيں کہ وہ بارہا پوليس سے اس بارے ميں پوچھتی رہيں ليکن انہيں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

ع س / ا ا، نيوز ايجنسياں