فرقہ واریت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، ایردوآن
14 اپریل 2016ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ تمام مسلم ممالک کو مل کر دہشت گردی کے انسداد کے لیے کوششیں کرنی چاہیں۔ ان کے بقول ،’’ میرے خیال میں آج کل ہمیں جس سب سے بڑے مسئلے کا سامنا ہے وہ ہے فرقہ واریت۔ میرا مذہب نہ تو شیعہ ہے اور نا ہی سنی۔ میرا مذہب اسلام ہے۔‘‘ ایردوآن کے مطابق تمام مسلم ممالک کو تنازعات کو ختم کرتے ہوئے متحد ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ صرف مسلمان ہی ظلم کا شکار ہو رہے ہیں، ’’یہ اجلاس اس سلسلے میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘ ایردوآن نے مزید کہا،’’ہمیں ایک ایسی تنظیم بنانے کی ضرورت ہے، جس کی ذمہ داری ہمارے درمیان تعاون بڑھانا اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنے میں مدد کرنا ہو۔‘‘
ترکی مسلم دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں میں ہے اور خاص طور پر ان ممالک میں جو کبھی سلطنت عثمانیہ کے زیر اثر تھے۔ یہ سربراہی اجلاس اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کے زیر انتظام ہو رہا ہے اور اگلے دو برسوں کے لیے اس تنظیم کی سربراہی ترکی کے پاس ہی ہو گی۔ تاہم اس دو روزہ اجلاس میں شام اور یمن میں جاری تنازعات سے جڑے موضوعات کو غلبہ حاصل رہے گا۔ اس لڑائی میں یک جانب سنی اکثریتی ملک سعودی عرب ہے تو دوسری جانب با اثر شیعہ ریاست ایران۔
ایردوآن نے اپنے تمام مہمانوں کا استقبال بھی کیا، جن میں سعودی فرمانرواں شاہ سلمان اور ایران کے صدر حسن روحانی بھی شامل ہیں۔ اس موقع پر تمام مہمانوں کو ایک تاریخی کشتی کے ذریعے باسفورس کی سیر بھی کرائی گئی۔ یہ کشتی جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتا ترک کے زیر استعمال بھی رہی ہے۔ ترکی کا اپنا کردار بھی کئی اسلامی ممالک کی نظر میں کافی متنازعہ ہے کیونکہ وہ شام میں باغیوں کی حمایت کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ مصر میں محمد مرسی کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے ترکی اور قاہرہ حکومت کے روابط ابھی تک استوار نہیں ہو سکے ہیں۔
اس سربراہی اجلاس کے اختتام پر کل جمعے کے روز استنبول اعلامیے کے نام سے ایک دستاویز بھی جاری کی جائے گی۔