1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس میں بیرونی ممالک کےآئمہ اور اساتذہ کی روک تھام پرغور

19 فروری 2020

فرانس کی حکومت بچوں کی تعلیم، اماموں کی تربیت اورمساجد کی مالی اعانت جیسے معاملات پراپنا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے نیا قانون متعارف کرانے والی ہے۔

https://p.dw.com/p/3Xz5V
Berlin Ibn Rushd Goethe Moschee
تصویر: Getty Images/AFP/J. McDougall

فرانس کی حکومت بچوں کی تعلیم، اماموں کی تربیت اورمساجد کی مالی اعانت جیسے معاملات پراپنا کنٹرول حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کا کہنا ہے کہ "علحیدگی پسندی" کی روک تھام کے مقصد سے دوسرے ممالک کی جانب سے فرانس میں آئمہ اور اسلامیات کے اساتذہ  بھیجنے پر وہ پابندی لگانے پر غور کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ اس چلن کو روکنا چاہتے ہیں جس کے تحت الجیریا، مراکش اور ترکی جیسے بیرونی ممالک فرانس کی مساجد میں تبلیغ کے لیے اپنے آئمہ مقرر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، "بیرونی اثر و رسوخ کو روکنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہر شخص جمہوریت کا احترام کرے، اس قونصلر اسلامی نظام کا خاتمہ بہت اہم ہے۔"

فرانسیسی صدر نے کہا کہ ان کی انتظامیہ نے فرانس میں اسلام کی نمائندہ تنظیم 'فرینچ مسلم کاؤنسل' (سی ایف سی ایم) سے کہا ہے کہ وہ فرانس میں ہی مساجد کے آئمہ کی تریبت کرے جو فرانسیسی زبان میں بات چیت کرسکیں اور سختگیر اسلامی نظریات کی تبلیغ سے باز رہیں۔ واضح رہے کہ یوروپ میں سب سے زیادہ مسلمانوں کی آبادی فرانس میں پائی جاتی ہے۔

Frankreich | Weibliche Imame Anne-Sophie Monsinay und Eva Janadin in Paris
جرمنی کے بعد اب فرانس میں بھی مساجد کے اماموں کی ملک کے اندر تربیت پر زور دیا جا رہا ہے۔تصویر: Getty Images/AFP/L. Bonaventure

ایمانوئل ماکروں کے مطابق بیرونی مسلم ممالک سے ہر برس فرانس میں تین سو امام بھیجے جاتے ہیں اور یہ برس بیرونی ممالک سے آنے والے اماموں کے لیے آخری سال ہوگا۔ ان کا کہنا تھا، "مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگ مذہب کے نام پر جمہوریت سے مُنہ موڑ لیتے ہیں اور پھر اسی بنا پر ملکی قوانین کا احترام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔"

فی الوقت فرانس کا نو بیرونی ممالک سے ایک ایسا معاہدہ ہے جس کے تحت وہ حکومتیں فرانس میں اسکولوں اور مدارس میں اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت کی درس و تدریس کے لیے اپنے اساتذہ بھیجتی  ہیں۔ لیکن اس پر فرانسیسی حکام کی طرف سے کسی طرح کی کوئی نگرانی کا نظام نہیں ہے۔ فرانسیسی صدر کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں دیگر ممالک سے ایسا دوطرفہ معاہدہ چاہتے ہیں جس کی رو سے آئندہ ستمبر سے شروع ہونے والے نئے تعلیمی سال سے فرانس کو تعلیمی نصاب اور اس کے مواد پر کنٹرول حاصل ہو۔

انہوں نے کہا کہ مساجد کی مالی اعانت میں شفافیت لانے کے لیے ایک قانون کا مسودہ تیار کیا جارہا ہے۔، " جمہوریہ فرانس کے اصول و ضوابط اور قدروں کے تحت اماموں کی تربیت کے ساتھ ساتھ مساجد کی مالی اعانت شفاف طریقے سے ہو، اس طرح ہم ایسے ماحول کی تخلیق کرسکیں گے جہاں مسلمان فرانس میں آزادانہ طور پر اسلام پر عمل کر سکیں گے۔" 

Frankreich, Imame setzen Zeichen gegen Terrorismus
فرانس میں زیادہ تر ترکی، الجیریا، مراکش،افغانستان اور پاکستان کے مسلم باشندے آباد ہیں۔تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kunigkeit

فرانس نے اس سلسلے میں جو نئے اقدامات کیے ہیں اس کے تحت ترکی کے ساتھ ابھی تک کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا ہے۔ فرانسیسی صدر کا کہنا ہے کہ ترکی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ فرانس کے ساتھ نئی شرائط کے ساتھ معاہدہ کرے یا نہ کرے۔ انہوں نے کہا، "میں کسی بھی بیرونی ملک کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا جو ہمارے ملک میں مذہبی اور ثقافتی بنیاد پر علحیدہ شناخت کو پروان چڑھنے کی بات کرے۔ ہم فرانس کی سرزمین پر ترکی کے قوانین کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتے۔"

فرانس میں دائیں بازو کی سختگیر نظریات کی حامل رہنما ماری لا پین مسلمانوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے تعلق سے ماکروں کے طور طریقوں پر نکتہ چینی کرتی رہی ہیں اور اسی کے پیش نظر فرانس کے صدر نے اس طرح کے اعلانات کیے ہیں ورنہ اب تک وہ ملک کی معیشت کے استحکام اور معاشی اصلاحات پر توجہ دیتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس چلن کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں کہ فرینچ بچے ان اساتذہ سے تعلیم حاصل کریں جو بیرونی ممالک سے تنخواہیں لیتے ہیں۔

ص ز/ ک م (ایجنسیاں)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں