1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیر قانونی افغان مہاجرین کی تیس دنوں میں واپسی کا منصوبہ

فریداللہ خان، پشاور23 دسمبر 2014

خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے غیر قانونی مہاجرین کی تیس دن کے اندر اندر واپسی کے اعلان نے صوبہ بھر میں رہائش پذیر غیر قانونی مہاجرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ ان کی واپسی تین مراحل میں ممکن بنائی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/1E9KV
Afghanistan Flüchtlinge am Khyber Grenzübergang nach Pakistan Archivbild
تصویر: Tanveer Mughal/AFP/Getty Images)

سولہ دسمبر کو آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد صوبائی حکومت نے غیر قانونی افغان مہاجرین کو ہنگامی بنیادوں پر واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا۔ صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق غنی کا کہنا ہے، ’’افغان مہاجرین صوبے کی معیشت پر بوجھ ہیں۔ انہیں اب واپس جانا ہوگا۔ وفاقی حکومت افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے عملی اقدامات اُٹھائے۔“ صوبائی حکومت نے صوبہ بھر میں مقیم غیر قانونی افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے تین مراحل کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ پہلے مرحلے میں صوبہ بھر کے مہاجر کیمپوں کو بند کیا جائے گا۔ ان کیمپوں میں مقیم زیادہ تر افغان مہاجرین بغیر رجسٹریشن کے رہ رہے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں جعلی شناختی کارڈز اور پاسپورٹ رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی جبکہ تیسرے مرحلے میں کیمپوں کے علاوہ دیگر علاقوں میں رہنے والے غیر قانونی افغان مہاجرین کے خلاف اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ صوبائی حکومت نے اس اسٹریٹجی سے متعلق متعلقہ اداروں سمیت وفاقی حکومت کو بھی آگاہ کردیا ہے۔

دوسری جانب پشاور میں مقیم افغان مہاجرین صوبائی حکومت کے اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ پشاور کینٹونمنٹ میں اسٹور کے مالک حاجی زمان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا ” میں چار سال کی عمر میں پشاور آیا تھا۔ یہاں زندگی کے 28 سال گزارے۔ اب واپس جا نے کے لیے دل نہیں کرتا۔ افغانستان میں اب میرا کچھ باقی نہیں رہا، میرے بچے یہاں زیر تعلیم ہیں۔ میرا کاروبار ہے، کافی سارے افغانوں کا یہاں رشتہ داریاں ہیں۔ اب یہاں سے جانا اور وہ بھی ایک ماہ کے اندر ممکن نہیں۔ “

Afghanistan Flüchtlinge Flüchtlingslager
تصویر: AP

پاکستان، افغانستان اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مابین طے شدہ معاہدے کی رُو سے رجسٹرڈ افغان مہاجرین 2015ء تک پاکستان میں رہ سکتے ہیں۔ ایسے افغان مہاجرین کو مخصوص کارڈز (پروف آف رجسٹریشن) دیے گئے ہیں۔ یو این سی ایچ آر رضا کارانہ طور پر افغانستان جانے والوں کو سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں دو سو ڈالر بھی دیتا ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد تقریباﹰ سولہ لاکھ ہے جبکہ مجموعی طور پر تقریباﹰ تیس لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں آباد ہیں۔ ان کی اکثریت خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر ہے۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ صوبے کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر افغان مہاجرین کی تعداد 17لاکھ سے زائد ہے۔

خیبر پختونخوا کی تاجر برادری ایک عرصے سے افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کا مطالبہ کرتی آئی ہے۔ پاک افغان جائنٹ چیمبر آف کامرس کے ڈائریکٹر ضیاءالحق سرحدی کا کہنا ہے، ”اب افغانستان میں امن و امان کی صورتحال میں کافی بہتر ی آئی ہے۔ لہٰذا بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ افغانوں کو اپنے دیس میں بسانے کے لیے ان کی مدد کرے اور جو امداد وہ انہیں پاکستان میں دے رہے ہیں وہ افغانستان میں دیں تاکہ یہ لوگ مستقل بنیادوں پر اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر اپنے ملک کی تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔‘‘

1980ء میں افغانستان پر روسی حملے کے بعد پچاس لاکھ افغانوں نے پاکستان میں پناہ لی تھا۔ تب پاکستان ان مہاجرین کو کسی ایک علاقے تک محدود کرنے میں ناکام رہا، جس کی وجہ سے یہ ہر شہر اور ہر گاؤں میں رہنے لگے۔ روسی افواج کے چلے جانے کے بعد کچھ مہاجرین تو واپس گئے تاہم طالبان کے دور میں مزید لوگ آئے اور پھر امریکا میں نائن الیون کے واقعے کے نتیجے میں شروع ہونے والی جنگ کے بعد مزید افغان باشندے پاکستان پہنچے۔