1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیر ازدواجی تعلقات اب سب کی دسترس میں

4 جولائی 2022

شادی شدہ زندگی کا آغاز دو انسانوں اور دو خاندانوں کے ایک دوسرے پر اعتماد سے ہوتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے اب ہمارے معاشرے میں بھی غیر ازدواجی تعلقات کی وجہ سے اس اعتماد کے اپنے انجام کو پہنچنے کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Dc6k
DW Urdu Blogerin Tahira Syed
تصویر: Privat

پاکستانی معاشرے میں عام طور پر کہا جاتا رہا ہے کہ شادی کے بعد مرد کی دلچسپی کہیں اور ہو جاتی ہے یا پھر انہوں نے شادی سے پہلے کی پسندیدگی یا تعلق کو ختم کیے بنا نئی زندگی کا آغاز کردیا ہوتا ہے۔ بلکہ اب تو خواتین کے حوالے سے بھی ایسے واقعات سننے میں آ رہے ہیں۔ ایسے واقعات کو ماضی میں ہمارے معاشرے میں ناممکن تصور کیا جاتا تھا۔ اب چونکہ موبائل فونز نے ہر چیز بہت آسان کر دی ہے۔ تو یہ معاملات جلد ہی سامنے بھی آجاتے ہیں اور دو لوگوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔

میرے بھائی کا ایک چھوٹا سا کاروبار ہے۔ ایک دن اس کا ایک دوست اچانک اس کے آفس چلا آیا۔ اور کہنے لگا کہ وہ یہاں سے گزر رہا تھا سوچا ملتا جائے۔ جب کہ ابھی کل رات ہی اکھٹے ڈنر کر چکے تھے۔ یہ بات میرے بھائی کے لیے حیرانی کا باعث بنی پھر انہوں نے محسوس کیا کہ ان کا دوست کچھ پریشان سا معلوم ہو رہا ہے۔ آفس میں بیٹھے بیٹھے بار بار فون پر میسج کر رہا تھا پھر ایک دم سے کہنے لگا چلو یار ایک سیلفی بناتے ہیں۔ بھائی چونکہ کام میں مصروف تھے تو مزید حیران ہوئے کہ یہ سیلفی کی فرمائش کا کون سا موقع ہے۔ پھر انہیں لگا کہ یہ سیلفی بنانے کا مقصد ایک ثبوت حاصل کرنا ہے کہ وہ میرے ساتھ موجود ہے۔ بھائی سمجھے کہ کسی مشکل میں ہے۔ زور دے کے پوچھا کہ سچ سچ بتاؤ معاملہ کیا ہے؟ تو بھید کھلا کہ موصوف دو معصوم بچوں کے ابا بن چکے ہیں لیکن اس کے باوجود کہیں کسی اور خاتون کے ساتھ بھی وقت گزاری چل رہی ہے اور بیگم کو شک ہو گیا ہے۔ بیگم کا شک دور کرنے کے لیے اچانک بھائی کے آفس آکر سیلفی بنائی تاکہ بیگم کو یقین دلایا جا سکے کہ وہ کسی خاتون کے ساتھ نہیں تھے بلکہ اپنے دوست کے آفس میں تھے۔ یہ انتہائی غیر اخلاقی بات تھی اور ساتھ ہی خطرناک بھی۔ ایسا شخص اپنی نیک نامی اور شہرت کو تو خراب کرنے کے درپے ہوتا ہی ہے ساتھ ہی کل کلاں اگر کوئی کورٹ کیس بنے تو دوسرا بندا بلاوجہ مشکل میں پڑ جائے۔

ویسے تو ایک عام تاثر یہ ہے کہ کم عمر افراد عموماً ایسی حرکتیں کرتے ہیں اور وقت گزاری والے تعلقات بنا لیتے ہیں۔ اور پھر کہا جاتا ہے کہ رابطے کے ذرائع آسان ہونے کی وجہ سے بچے بچیاں اس طرح کے مشاغل میں پڑ گئے ہیں۔ لیکن یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ اچھے خاصے عمر کے شادی شدہ افراد بھی اس لت کا شکار نظر آتے ہیں، جن میں مرد اور عورت کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔

آپ کو شاید یہ جان کر حیرانی ہو کہ پاکستان میں "فیکٹ فائنڈر" کے نام سے ایک پرائیویٹ تفتیشی کمپنی بھی موجود ہے۔ جس کے بانی ایک ریٹائرڈ ملٹری پائلٹ ہیں۔ یہ کمپنی اپنے صارفین  کی تسلی کے مطابق ان کے لے کسی بھی شخص کی تفتیش کرتی ہے۔ ویسے تو یہ کمپنی بہت سی دیگر خدمات مہیا کرتی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسے مرد اور خواتین بھی آتے ہیں جو کہ اپنی بیوی یا شوہر کے حوالے سے کسی شک میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اور اپنے شک کو یقین میں بدلنے کے لیے اس کمپنی کی خدمات حاصل کر کے تفتیش کروانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔

 جب آپ ایک شخص کے ساتھ ازدواجی بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب آپ اس شخص کے ساتھ وفادار رہنے کا معاہدہ کر چکے ہیں۔ اگر اس معاہدے کے خلاف ورزی ہو رہی ہے تو یہ معاہدہ جاری نہیں رہ سکتا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ لوگ کس ڈھٹائی سے اپنے آپ کو نہ صرف حق بجانب سمجھتے ہیں بلکہ اکثر اوقات تو مظلوم بھی خیال کرتے ہیں۔ اس حوالے سے روئٹرز کا ایک پرانا آرٹیکل نظر سے گزرا جس میں فیکٹ فائنڈر کمپنی کے بانی نے ایک انتہائی دلچسپ واقعہ سنایا۔ ایک بار ان کے ایک کلائنٹ نے اپنی بیوی کے خلاف تفتیش کے لیے ان سے رجوع کیا۔ جب وہ خاتون دوسرے مرد کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑی گئی تو بجائے شرمندہ ہونے کے وہ خاتون دوسرے مرد پر برس پڑی۔ کہنے لگی کہ یہ سب تمہاری غفلت اور لاپرواہی کا نتیجہ ہے نہیں تو میں تین سال سے بڑے آرام سے اپنے میاں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی تھی۔ کیا ہم سوچ سکتے ہیں کہ یہ ہمارے ہی معاشرے کی ایک تصویر ہے؟

اکثر ایسا کرنے والوں کے پاس ایک ہی جواز ہوتا ہے کہ ہم اپنی شادی سے چونکہ مطمئن نہیں ہیں لہذا ایسا کرنا ہمارا حق بنتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ بات کسی حد تک درست بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہمارے یہاں ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ "شادی کر دو"۔ کوئی لڑکا اگر انتہائی لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہا ہے تو کہا جاتا ہے "شادی کردو ذمہ دار ہو جائے گا"۔ کسی کو اگر کوئی نفسیاتی عارضہ لاحق ہے تو پہلے تو کہا جائے گا کہ اس پر جن آتے ہیں۔ پھر حل یہ نکالا جاتا ہے کہ شادی کر دو ٹھیک ہو جائے گا۔ کوئی نشے کی لت میں مبتلا ہے تو اس کا حل بھی شادی ہی تجویز کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر بیٹی یا بیٹا کسی کو پسند کرنے لگیں تو بھی کہا جاتا ہے کہ اپنی مرضی سے رشتہ دیکھ کر فواً شادی کر دو۔ شادی ہو جائے گی تو اپنی پسندیدگی کو خود ہی بھول جائیں گے اور اگر یہ مسائل شادی کے بعد بھی حل نہ ہو تو پھر اگلا حل یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ ایک آدھ بچہ ہو گیا تو خود ہی سیٹ ہو جائیں گے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ خاتون بچوں میں الجھ جاتی ہے اور مرد باہر کی دنیا میں اپنی دلچسپی تلاش کر لیتا ہے۔ بلکہ اب تو کبھی کبھار خواتین بھی اپنی گھریلو چپقلشوں سے اکتا کر تازہ ہوا کا جھونکا حاصل کرنے کے لیے کوئی ایسی کھڑکی کھول لیتی ہیں۔ مواصلات کے آسان ذرائع نے روابط آسان کر دیے ہیں۔ موبائل کے ایک کلک پر سیکڑوں لوگوں سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ اور پھر اگلے مراحل طے کرنا بھی ہر ایک کی دسترس میں ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بےجوڑ شادیوں سے حتیٰ المقدور بچا جائے اور شادی اس وقت کی جائے جب دونوں فریقین باہمی رضامندی سے ایک دوسرے کے ساتھ وفادار رہنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ ہوں۔ ورنہ ہمارا معاشرہ پستی کی جس دلدل میں اترتا جا رہا ہے وہاں سے واپسی کی ہر راہ مشکل سے مشکل تر ہوتی جائے گی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔