1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ غلطیاں کرنے والے کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے‘ میرکل

29 مارچ 2021

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے ملک میں کورونا بحران سے نمٹنے کے عمل میں غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ جرمنی میں ’کاملیت پسندی‘ کا رجحان بہت سے امور میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3rKIx
Bundeskanzlerin Angela Merkel zu Gast bei Anne Will
تصویر: Wolfgang Borrs/NDR/dpa/picture alliance

 

 کرسچین ڈیمو کریٹک پارٹی یعنی سی ڈی یو کی لیڈر، 15 سال سے چانسلر کے عہدے پر فائز چانسلر انگیلا میرکل نے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں اس امر کا اعتراف کیا کہ ان کی حکومت کی طرف سے کورونا وبا سے نمٹنے میں بہت سی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کورونا ویکسینیشن کی مہم میں سست روی سے لے کر لاک ڈاؤن کے اُصول و ضوابط جیسے معاملات میں پس و پیش، سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ جرمن معاشرے میں ' پرفیکشنزم‘ یا کاملیت پسندی کا رجحان پایا جاتا ہے جس میں لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

میرکل کا 'یو ٹرن‘

میرکل نے اتوار کو جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کو ایک طویل انٹرویو دیا اور کورونا بحران سے نمٹنے کے لیے کیے گئے حکومتی اقدامات کا طویل جائزہ لیتے ہوئے اُن غلطیوں کا اعتراف کیا جن کے سبب بہت سی مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ سب سے بڑھ کر جرمنی میں کورونا ویکسینیشن کی مہم انتہائی سست رفتار ہے اور یہ عوام میں مایوسی کا سبب بنی جبکہ جرمن کمپنی بائیواین ٹک نے امریکی دوا ساز کمپنی فائزر کے تعاون سے کورونا کے خلاف سب سے پہلے ویکسین تیار کی تھی۔ متعدد دیگر یورپی ممالک نے ویکسینیشن کی مہم میں جرمنی کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیز رفتاری سے کام لیا۔ کورونا کی پہلی لہر گزرنے کے بعد تمام یورپی ممالک نے لاک ڈاؤن میں کسی حد تک نرمی کی لیکن کورونا کے نئے کیسز میں بدستور اضافے کے سبب قریب تمام ممالک میں لاک

مسلم تہواروں پر چھٹی، جرمن وزیر کی تجویز پر کئی حلقے ’حیران‘

ڈاؤن کی سختی کو نافذ کرنا پڑا۔

Weltspiegel | 25.03.2021 | Bilder des Tages | Tableau
میرکل اپنی پارٹی کے اراکین کےرویے سے مایوس۔تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance

جرمنی کورونا کی دوسری لہر سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور اقتصادی بوجھ کو مد نظر رکھتے ہوئے قوانین و ضوابط میں تبدیلی لاتا رہا۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل گرچہ اپنی دور اندیشی کے سبب گذشتہ برس کرسمس سے پہلے قوم سے خطاب میں یہ بیان دے چُکی تھیں کہ غالباً اگلے برس کے ایسٹر کے تہوار پر بھی عوام کو اپنی سرگرمیوں کو محدود رکھنا پڑ ے گا۔

گذشتہ دسمبر سے اب تک جرمنی میں لاک ڈاؤن کے ضوابط میں بہت سی تبدیلیاں آتی رہیں اور میرکل ہر بار اس بارے میں اعلان سے پہلے تمام صوبوں کے وزارئے اعلیٰ سے صلاح و مشورے کرتی آئی ہیں۔ جرمنی کے تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ کو جرمنی کے وفاقی نظام کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں کی صورتحال کے مطابق لاک ڈاؤن میں سختی یا نرمی کا اعلان کریں تاہم کورونا کے نئے کیسز اور کووڈ انیس سے ہونے والی اموات کے اعداد و شمار کا جائزہ ملکی سطح پر لیا جاتا ہے۔

برطانیہ کی نصف بالغ آبادی کو پہلی ویکسین لگا دی گئی

چند ضوابط کا تعلق پورے ملک سے ہوتا ہے۔ ابھی ایسٹر لاک ڈاؤن سے متعلق میرکل نے بیانات دیے جس پر اُن کی اپنی پارٹی کے ممبراں پہلے متفق تھے، بعد ازاں چانسلر کے ایسٹر لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد خود کرسچین ڈیمو کریٹک یونین کے اراکین نے میرکل کے ایسٹر لاک ڈاؤن کی مخالفت زور و شور سے کی۔ میرکل پر عوامی، اقتصادی اور سیاسی سطح پر حد سے زیادہ تنقید سامنے آئی یہاں تک کہ جرمن چانسلر نے 'ایسٹر لاک ڈاؤن‘ کے فیصلے کو واپس لیا اور اس تنقید کے تناظر میں گذشتہ ہفتےاپنے ایک مختصر پیغام میں اعتراف کیا کہ ایسٹر کے دنوں میں سخت لاک ڈاؤن کا فیصلہ کافی زیادہ عوامی بے یقینی کی وجہ بنا ہے، جس پر انہیں افسوس ہے اور وہ دل سے معذرت خواہ بھی ہیں۔

میرکل کے اس اقدام کو 'یو ٹرن‘ قرار دیا گیا۔ ساتھ ہی کئی  ارکان نے کہا کہ ''انگیلا میرکل کی بطور سیاستدان ایک بڑی خوبی ان کی طرف سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لینا ہے اور حکومتی فیصلہ واپس لے لینا اور اس پر عوام سے معذرت کرنا ان کے بڑے پن کا ثبوت ہے۔ ‘‘

UK Corona Pandemie | London
جرمنی نے فرانس ، خاص طور سے پیرس کو ’ریڈ زون‘ قرار دے دیا ہے۔تصویر: Alex Lentati/ZUMAPRESS/picture alliance

میرکل نے یہ بیان کیوں دیا؟

کورونا کی وبا کے پھیلاؤ کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا۔ یورپ کے دیگر ممالک کی طرح جرمنی بھی اس وبا سے بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ جرمن حکومت نے اس اثناء میں بہت سے ایسے اقدامات بھی کیے جو قابل تعریف تھے۔ مثال کے طور پر جب کورونا وائرس کی پہلی لہر نے پورے یورپ کو خوفناک حد تک اپنی لپیٹ میں لیا تو چند یورپی ممالک جیسے کہ اٹلی، اسپین، یونان کی صورتحال بہت تشویشناک ہوئی۔ ان ممالک میں طبی عملے اور تکنیکی وسائل کی اشد ضرورت تھی تو جرمنی نے مدد کی تھی۔ جرمنی یورپ کے وسط میں واقع ہے اس لیے جرمنی کو تمام اطراف کی سرحدوں کو بھی کنٹرول کرنا تھا اور خود جرمنی کی 16 ریاستوں کے اندر کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اجتماعی اقدامات بھی کرنا تھے اور ہر ریاست یا صوبے کو انفرادی سطح پر بھی اپنے ہاں پائی جانے والی صورتحال کے مطابق قواعد و ضوابط طے کرنا پڑے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر ریاست کے وزرائے اعلیٰ نے اپنے طور پر انفرادی فیصلے کیے اور اپنے صوبے میں اُسے نافذ کروایا۔ اس صورتحال میں وفاقی حکومت کافی حد تک بے بس نظر آنے لگی۔ میرکل اس وقت کافی مایوس نظر آئیں جس کا اظہار انہوں نے اینے انٹرویو میں کیا۔

غریب ممالک کو کووڈ ویکسین کی 40 ملین خوراکیں فراہم کی جائیں گی، ڈبلیو ایچ او

میرکل جو اس سال ستمبر میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ہیں، نے اپنے ٹیلی وژن انٹرویو میں کہا کہ وہ اپنے اس وعدے پر قائم رہیں گی کہ اس سال سال موسم گرما کے اختتام تک جرمنی کے تمام بالغ شہریوں کو ویکسین لگا دی جائے گی۔ جرمن چانسلر نے یہ بھی کہا کہ ان کا ملک اپنے پڑوسی ممالک کے مقابلے میں کورونا سے بچاؤ کے اقدامات  میں اب تک بہتر کار کردگی کا ثبوت دے چُکا ہے۔ ایک خاص نکتے کی نشاندہی کرتے ہوئے انگیلا میرکل کا کہنا تھا،'' شاید ہم بسا اوقات بہت زیادہ کاملیت پسند ہو جاتے ہیں اورہر چیز بالکل کامل طریقے سے کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ میرکل نے کُھلے دل سے کہا،''  جو غلطیاں کرتا ہے اُسے ہمیشہ بہت سی عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘

 

ک م/ ع ح/ اے پی ای