1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد 34 ہزار سے متجاوز

4 مئی 2024

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق غزہ پٹی میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 34 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ ادھر حماس کے مذاکرات کار جنگ بندی کے حوالے سے بات چیت کے لیے مصری دالحکومت قاہرہ پہنچ گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4fVbx
Gaza-Streifen Rafah | Zerstörungen durch Krieg
تصویر: Abed Rahim Khatib/dpa/picture alliance

گزشتہ برس سات اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی طرف سے اسرائیل کے اندر کیے جانے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد غزہ میں شروع ہونے والی اسرائیلی زمینی اور فضائی کارروائیوں میں اب تک 34,654 فسلطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

رفح آپریشن لاکھوں فلسطینیوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ ہو گا، اقوام متحدہ

امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے جاری

حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اس تعداد میں وہ 32 ہلاکتیں بھی شامل ہیں جو گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہوئیں۔ اس حوالے سے جاری بیان کے مطابق گزشتہ سات ماہ سے جاری اس جنگ میں زخمی ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 77,908 ہے۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

 اسرائیلی زمینی اور فضائی کارروائیوں میں اب تک 34,654 فسلطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی زمینی اور فضائی کارروائیوں میں اب تک 34,654 فسلطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔تصویر: Ahmad Hasaballah/Getty Images

حماس کے عہدیدار قاہرہ پہنچ گئے

حماس کے ایک عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اس کے مذاکرات کار غزہ میں ممکنہ جنگ بندی کے بارے میں بات چیت کے لیے آج ہفتے کے روز قاہرہ پہنچ چکے ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ بندی مذاکرات میں 'قابل ذکر پیشرفت‘ ہوئی ہے۔

قطر حماس کا سیاسی دفتر بند کر سکتا ہے، ذرائع

خلیجی ریاست قطر فلسطینی گروپ حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں بطور ثالث اپنے کردار کے وسیع تر جائزے کے نتیجے میں اپنے ہاں قائم حماس کا سیاسی دفتر بند کر سکتی ہے۔ یہ بات قطری حکومت کے ازسرنو جائزے سے واقف ایک عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتائی۔

اس عہدیدار نے روئٹرز کو بتایا کہ قطر اس بات پر غور کر رہا ہے کہ آیا حماس کو سیاسی دفتر چلانے کی اجازت دی جائے یا نہیں اور اس پر بھی کہ آیا سات ماہ سے جاری تنازعے میں ثالثی جاری رکھی جائے یا نہیں۔ واضح رہے کہ حماس کو يورپی يونين، امريکا اور چند ديگر مغربی ممالک دہشت گرد تنظيم قرار ديتے ہيں۔

قطر نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات میں ثالث کے طور پر اپنے کردار کا از سر نو جائزہ لے رہا ہے۔ اس حوالے سے قطر نے ایسے سیاستدانوں کا ذکر کیا تھا جو پوائنٹس حاصل کرنے کی کوشش میں قطری کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

اس عہدیدار نے یہ نہیں بتایا کہ اگر قطری حکومت نے تنظیم کا دفتر بند کرنے کا فیصلہ کیا تو حماس کو دوحہ چھوڑنے کے لیے کہا جائے گا یا نہیں۔

غزہ پٹی میں امدادی سامان پہنچانا مشکل کیوں؟

خیال رہے کہ جمعے کے روز واشنگٹن پوسٹ نے ایک نامعلوم امریکی عہدیدار کے حوالے سے بتایا تھا کہ واشنگٹن نے دوحہ سے کہا ہے کہ اگر فلسطینی تنظیم حماس اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کو مسترد کرنے کا سلسلہ جاری رکھتی ہے تو اسے ملک بدر کر دیا جائے۔

قطر امریکہ کے ساتھ ہونے والے ایک معاہدے کے تحت سن 2012 سے حماس کے سیاسی رہنماؤں کی میزبانی کرتا آیا ہے۔

ا ب ا/ک م - ع س (روئٹرز، اے پی)