پاکستان کی سیاست کا اس وقت تک کا بڑا سوال تو یہی ہے، جس کا جواب سیاسی بیانات کی بھرمار اور سیاسی ملاقاتوں کی ٹی وی سکرینوں پر بتائی جانے والی اندرونی کہانیوں یا تجزیاتی سحر انگیزیوں میں سے ڈھونڈنا بھوسے میں سے سوئی ڈھونڈنے کے برابر ہے۔
کھوئی دستار ڈھونڈتے ملا نصیر الدین بھی ایک راہگیر کو گلی میں نظر آئے تھے۔ پوچھنے پر راہگیر کو بتایا کہ دستار کمرے میں کہیں رکھ کر بھول گیا ہوں مگر کمرے میں چونکہ اندھیرا ہے، اس لیے اسے باہر گلی میں ڈھونڈ رہا ہوں۔ ملا نصیر الدین کی بات کو بے وقوفی سمجھنا یا اس میں سے ذہانت کے موتی چننا، اپنا اپنا فیصلہ ہے۔
تاہم عمران خان کا تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دنوں میں پارلیمنٹ کے باہر ڈی چوک پر دس لاکھ لوگوں کو اکٹھا کرنے کا اعلان تاریک ایوان میں کھوئی دستار کو روشن ڈی چوک پر ڈھونڈنے جیسا ہی معلوم ہو رہا ہے۔ کیا عمران خان کو یقین ہو چکا ہے کہ حکومت کی دستار ایوان میں کھو چکی ہے! اس بات کی طرف ایک اشارہ تو مستقل حکمرانوں کا بظاہر 'نیوٹرل‘ ہونا اور ان کے مستقل سیاسی طفیلیوں کا نیوٹریلیٹی کی ہوا کا درست درست اندازہ لگانے کے بعد اپنے اپنے اصطبل میں بندھے گھوڑوں کو کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت کے لیے منڈی میں دستیاب کرنے سے بھی ہوتا ہے۔
تو کیا تحریک عدم اعتماد کے دوران ڈی چوک پر جلسہ ہی عمران خان کا وہ ترپ کا پتا تھا، جس کا ذکر ان کے باتدبیر وزراء اپوزیشن کے کیمپوں میں کھلبلی مچانے کے لیے کر رہے تھے۔ مگر بظاہر یہ تو تاش کا نہلا ثابت ہوتا نظر آتا ہے، جس پر متحدہ اپوزیشن نے اسلام آباد کی ہی شاہراہ دستور پر کہ جس پر قومی اسمبلی کا ایوان واقع ہے، 25 مارچ کو اجتماع کرنے کا اعلان کر کے دہلے پھینک کر بازی پلٹ دی ہے۔
اور بازی بھی ایسے پلٹی کہ سیاست میں کشیدگی بڑھانے اور معاملہ ایوان سے باہر چوراہوں پر طے کرنے کا الزام بھی حکومت پر آئے۔ تو پھر کپتان قومی اسمبلی کے ایوان کی پچ کے ارد گرد فیلڈنگ کیوں سیٹ کر رہے ہیں۔ کیا وہ سمجھ رہے ہیں کہ بیٹنگ اینڈ پر سابق بھارتی ٹیل اینڈردلیپ دوشی ہیں، جو ہمیشہ بغیر کسی مزاحمت کے اپنی وکٹ عمران خان کی ان سوئنگ یارکر پر کھو دیا کرتے تھے۔
پونے چار سال کی حکومت کے بعد کپتان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کا مطلب چوتھی اننگز میں دھول سے اٹی وکٹ پر بیٹنگ کرنے جیسا ہے۔ 172 رنز کا ہدف سامنے ہے۔ ٹیم میں موجود کئی کھلاڑی باغی ہو چکے ہیں۔ ڈریسنگ روم میں چہ میگوئیاں ہیں کہ کپتان کے کئی کھلاڑی مخالف ٹیم سے مل گئے ہیں۔ وہ یا تو انڈر پرفارم کریں گے یا خود کو جان بوجھ کر ان فٹ قرار دے کر مخالفوں کی جیت کو سہل بنا دیں گے۔
کپتان مسلسل بیٹنگ اینڈ پر کھڑا ایک ایک گیند کو پھونک پھونک کر کھیل رہا ہے۔ اسے یقین نہیں کہ دوسرے اینڈ پر کھڑا بلے باز اس کے ساتھ ہے یا نہیں، وہ ایک ایک رنز کے لیے بھی دوڑنے سے پہلے سوچتا ہے کہ دوسرے اینڈ پہ موجود بلے باز ہدف کے حصول میں مدد گار بننے کی بجائے کہیں اسے رن آؤٹ ہی نہ کرا دے۔
کپتان کے پاس ہدف کے حصول کے لیے درکار اوورز بھی تیزی سے ختم ہو رہے اور ہدف بھی دور سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اس فارمیٹ میں کپتان کے پاس میچ کو ڈرا کرنے کا آپشن نہیں۔
تحریک عدم اعتماد کی الجھی گتھی کو سمجھنے کے لیے کرکٹ سٹیڈیم سے واپس اس گلی میں چلتے ہیں، جہاں ملا نصیرالدین اپنی دستار ڈھونڈ رہے ہیں، یاد رہے کہ ملا جانتے ہیں کہ وہ دستار اندھیرے کمرے میں بھول آئے ہیں اور چونکہ وہاں اندھیرا ہے، اس لیے وہ اسے باہر روشن گلی میں ڈھونڈ رہے ہیں۔
روشن گلی میں نکل کر دستار ڈھونے کا فائدہ ہے کہ دستار ملے نہ ملے کم از کم زخمی نہ ہوں گے، دستار کھو جانے کا دکھ آس پاس لوگوں کو معلوم ہو گا تو شاید وہ ہی معاملے کا کچھ حل نکال دیں۔ شومئی قسمت اگر کوئی پھیری والا دستار بیچتے ادھر سے گزرا تو نئی دستار ہی لے لیں گے۔
کہاوتوں والے ملا نصیر الدین ہوں یا پاکستانی سیاست کا کوئی بھی کپتان، سب جانتے ہیں کہ دستار غیر مرئی امداد حاصل نہ رہے تو دستار کو ایک نہ ایک دن کھو جانا ہے اور ضروری نہیں ہے کہ اسے اسی جگہ ڈھونڈا جائے، جہاں وہ کھوئی تھی۔
وہ دستار، جو دن کے اجالے میں لوگوں کا دل جیت کر تکریم کے طور پر ملے، اس کے کہیں کھو جانے کا ڈر نہیں ہوتا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ بند کمروں میں دستاریں وصول کرنے والے دستار سمیت تاریخ کی دھول میں دھول ہو جاتے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔