1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عسکریت پسندوں کو حملوں کی اجازت نہیں دیں گے، طالبان حکومت

15 ستمبر 2021

افغانستان کے نئے وزیر خارجہ امیرخان متقی نے کہا ہے کہ طالبان حکومت کسی فرد یا گروپ کو اپنی سرزمین کو کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی کبھی اجازت نہیں دے گی۔ انہوں نے امریکا سے اپنا دل بڑا کرنے کے لیے بھی کہا۔

https://p.dw.com/p/40KuP
Afghanistan Kabul | Mawlawi Amir Khan Muttaqi, Außenminister Übergangsregierung
افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقیتصویر: Bilal Guler/Anadolu Agency/picture alliance

افغانستان کے نئے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا ہے کہ طالبان حکومت اپنے اس عزم پر قائم ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کو دیگر ملکوں پر حملوں کے لیے افغان سر زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ تاہم انہوں نے اس بارے میں کچھ بتانے سے انکار کر دیا کہ ملک کے نئے حکمران ایسی حکومت کب قائم کریں گے، جس میں تمام فریق شامل ہوں یا پھر وہ ایسا کریں گے بھی یا نہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق افغان دارالحکومت کابل میں منگل کے روز اپنی پہلی پریس کانفرنس میں امیر متقی نے کہا، ”ہم کسی فرد یا گروپ کو اپنی سر زمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔"

امریکا اور طالبان کے درمیان جس دوحہ معاہدے کے تحت امریکی فوج کا افغانستان سے انخلاء عمل میں آیا ہے اس میں طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ القاعدہ اور دیگر عسکریت پسند گروپوں سے روابط ختم کردیں گے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ عسکریت پسند افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف نہ تو استعمال کریں اور نہ ہی وہاں رہ کر کسی دوسرے ملک کے لیے خطرہ بنیں گے۔

Afghanistan Kabul Demonstration gegen Pakistan
تصویر: HOSHANG HASHIMI/AFP

وسیع تر نمائندگی کب ہوگی، نہیں معلوم

طالبان نے گزشتہ ہفتے جس عبوری حکومت کا اعلان کیا، اس میں شامل تمام افراد کا تعلق طالبان تحریک سے ہے، حتیٰ کہ ان میں سے کئی افراد دہشت گردوں کی بین الاقوامی فہرست میں بھی شامل ہیں۔ افغان طالبان کی کابینہ میں کسی خاتون یا دیگر افغان گروپوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے طالبان رہنماؤں نے کابینہ میں وسیع تر نمائندگی کا وعدہ کیا تھا۔

طالبان، خواتین یا دیگر لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو حکومت میں شامل کریں گے؟ اس سوال کے جواب میں امیر خان متقی کا کہنا تھا، ”ہم برقت فیصلہ کرلیں گے۔‘‘ مگر انہوں نے اس حوالے سے کوئی وعدہ نہیں کیا۔

افغانستان کے نئے وزیر خارجہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ افغانستان کی موجودہ حکومت عارضی بنیادوں پر کام کر رہی ہے اور جب مستقل حکومت بن جائے گی تو”ہم اس بات پر غور کریں گے جیسا کہ لوگ چاہتے ہیں۔‘‘ تاہم انہوں نے مستقبل میں حکومت کے قیام کے وقت کے بارے میں بھی کچھ نہیں بتایا۔ انہوں نے کہا، ”ہم ہر کام مرحلہ وار کر رہے ہیں۔ ہم نے یہ نہیں کہا کہ موجودہ کابینہ کب تک قائم رہے گی۔"

طالبان وعدوں کی تکمیل میں ناکام رہے ہیں، اقوام متحدہ

امیر خان متقی نے ملک میں انتخابات کرانے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دیگر ملکوں کو افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

Kabul, Afghanistan | Frauen bei Taliban Veranstaltung
تصویر: Sayed Khodaiberdi Sadat/AA/picture alliance

’داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کریں‘

امریکا کے ساتھ بات چیت کے لیے طویل عرصے تک طالبان کی مذاکراتی ٹیم کا حصہ رہنے والے امیر خان متقی نے پریس کانفرنس میں ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ آیا طالبان حکومت عالمی دباؤ کے سامنے جھکے گی یا نہیں۔

طالبان کے موجودہ رویے سے بین الاقوامی برادری کی جانب سے اسے تسلیم کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ نئی حکومت کو بیرون ملک اپنے منجمد اثاثوں کو واپس لانے میں بھی پریشانی ہوگی جبکہ اس وقت ملک کو انسانی بحران سے بچانے کے لیے بڑے پیمانے پر پیسوں کو ضرورت ہے۔

گذشتہ ماہ مغربی ملکوں کی فوج کے انخلا اور طالبان کے اچانک اقتدار میں آنے کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں نے پیسے، طالبان حکومت کو تسلیم کرنے اور انہیں الگ تھلگ کرنے کی دھمکیوں کو دباؤ کے حربے کے طور پر استعمال کیا تاکہ طالبان سن 1990 کی دہائی والی جابرانہ حکومت کے قیام سے باز رہیں۔

افغانستان کی مالی مدد: چین، پاکستان اور قطر سب سے آگے

متقی نے کہا کہ طالبان حکومت دیگر ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے لیکن ان ملکوں کو ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ بیرونی ملکوں میں واقع افغانستان کے تمام سفارت خانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ حسب معمول اپنا کام کرتے رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت افغانوں کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دے گی اور اپنے شہریوں کو پاسپورٹ فراہم کرنا طالبان حکومت کی ذمہ داری ہے۔

Doha Katar | Michael R. Pompeo treffen mit Taliban Offiziellen
تصویر: U.S. Department of State/AA/picture alliance

’امریکا اپنا دل بڑا کرے‘

افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا ہے کہ امریکا کو 'دل بڑا‘ کرنا چاہیے اور افغانوں پر مزید دباؤ ڈالنے سے گریز کرنا چاہیے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امیر متقی نے کہا، ”امارت اسلامی نے امریکیوں کی مدد کی اور ان کے انخلا کی راہ ہموار کی۔ ہم نے اپنا یہ وعدہ پورا کیا کہ انخلا اچھی طرح ہوجائے لیکن بدقسمتی سے اس تعاون کو سراہنے کے بجائے امریکا ہمارے لوگوں پر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔"

ان کے بقول، ''ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا ایک بڑا ملک ہے اور انہیں دل بڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان ایک غریب ملک ہے اور اس کے ساتھ ظالمانہ سلوک نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہم بین الاقوامی برادری کے ساتھ مثبت اور جامع تعلقات چاہتے ہیں اور ہم ان سے یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ افغان عوام پر مزید دباؤ ڈالنا بند کریں۔ ہم نے گذشتہ بیس سالوں میں دیکھا ہے کہ دباؤ کی پالیسی کے کوئی نتائج نہیں نکلے اور نہ ہی مستقبل میں اس کے نتائج ہوں گے۔"

امیر خان متقی نے اقوام متحدہ سے بھی اپیل کی کہ وہ دہشت گردوں کی عالمی فہرست میں شامل طالبان وزیروں کے ناموں کو نکال دے۔ ان کا کہنا تھا، ”اس فہرست کی اب کوئی منطقی دلیل نہیں رہ گئی ہے۔"

انہوں نے عالمی برادری سے ملنے والی امداد کو کرپشن کے بغیر افغان عوام کی بہبود کے لیے استعمال کرنے کی بھی یقین دہانی کروائی۔

 عطیہ دہندگان کا افغانستان کے لیے ایک ارب ڈالر کی مدد کا وعدہ

افغانستان کے وزیر خارجہ نے کہا، ''افغانستان کے لیے ایک ارب ڈالر کی مالی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم ان تمام ممالک اور تنظیموں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اس امداد کا وعدہ کیا۔ یقیناً یہ ایک اچھا عمل ہے اور ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم وعدہ کرتے ہیں کہ امارت اسلامی ضرورت مند افراد تک امداد پہنچانے کے لیے مکمل تعاون کرے گی۔"

ج ا/ ع آ (اے پی، اے ایف پی)