1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب ممالک فلسطینیوں کی نئی نقل مکانی سے خوف زدہ

28 اکتوبر 2023

جنگ زدہ غزہ پٹی میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے لیے خیمہ بستیوں کا نظارہ اسرائیل کے عرب پڑوسیوں بالخصوص مصر اور اردن کے لیے تاریک تاریخ کی یادیں تازہ ہو جانے کا سبب بن رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4XztR
Gaza palästinensische Flüchtlinge im Rafah-Flüchtlingslager
تصویر: Mohammed Abed/AFP

دو ہفتے سے بھی زائد عرصے سے جاری غزہ  اور اسرائیل کی جنگ میں دو طرفہ تباہی کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کا جتنا ضیاع ہوا ہے، اس کا صدمہ اور خوف متاثرہ علاقوں کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر بھی شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی اسرائیل کے پڑوسی ممالک کے لیے موجودہ صورت حال بھیانک خواب بن گئی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اب بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے لیے خود غزہ پٹی کے اندر لگائے جانے والے خیمے بھی ماضی کے تاریک ادوار کی یاد تازہ کر رہے اور عرب ممالک اور عوام کو خوفزدہ کر رہے ہیں۔

غزہ میں مقیم انسانی حقوق کے گروپ المیزان کے بقول، ''نقبہ کا آغاز اسی طرح ہوا تھا۔‘‘ اس گروپ کی طرف سے علاقائی شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے سمجھا یہ جا رہا ہے کہ اسرائیل غزہ پٹی کے ساحلی علاقے کو خالی کرانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

کیا اسرائیلی فوج غزہ پٹی میں زمینی کارروائی کرے گی؟

نقبہ جس کا مطلب ''تباہی‘‘ ہے کو عرب دنیا 75 سال قبل ریاست اسرائیل کے قیام کی وجہ سے ہونے والی جنگ میں 760,000 فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی یا بے گھر ہو جانے کا حوالہ کہتی ہے۔

Rafah | südlicher Gazastreifen
غزہ پٹی کیے بیشتر مکانات کھنڈرات میں تبدیل ہو چُکے ہیں تصویر: Said Khatib/AFP

تاریخ کے اپنے آپ کو دہرانے کا خوف پیدا ہو گیا ہے کیونکہ اسرائیل نے حماس کے خلاف اپنی نئی جنگ اس وقت شروع کی جب اس دہشت گرد گروپ نے سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حملے میں چودہ سو افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

غزہ میں حقوق انسانی کے گروپ المیزان کا کہنا ہے، ''نقبہ کا آغاز اسی طرح ہوا تھا،‘‘ جو علاقائی شکوک و شبہات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسرائیل ساحلی علاقے کو خالی کرانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

غزہ  پٹی زیادہ تر ان فلسطینی پناہ گزینوں اور ان کی اولادوں کی آبادی والا علاقہ ہے، جو گزشتہ دو ہفتوں سے جاری اسرائیلی  بمباری کے سبب انتہائی کسمپرسی میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عسکریت پسند تنظیم حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں غزہ میں 5,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

زمینی فوجی حملے سے قبل علاقے کے شمال کو خالی کر دینے کے اسرائیلی انتباہ نے گہرے تاریخی خدشات کو جنم دیا ہے، غزہ کے دس لاکھ باشندے پہلے ہی اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں۔

Rafah | südlicher Gazastreifen
غزہ کے جنوبی حصے میں بھی ملبے اور کھنڈرات کے سوا کچھ نہیں بچا ہےتصویر: Said Khatib/AFP

غزہ سے نکلنے کا واحد ممکنہ راستہ جس پراسرائیل  کا کنٹرول نہیں، وہ مصر کے ساتھ رفح بارڈر کراسنگ ہے۔ دریں اثناء جب اسرائیل نے امریکی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے کے تحت اس علاقے میں فلسطینیوں پر بمباری کا سلسلہ روکا، تب مصر نے رفح کے راستے غزہ میں امدادی اشیاء سے لدے ٹرکوں کو جانے کی اجازت دے دی ۔ لیکن دوسری طرف پناہ گزینوں کی امداد کے لیے کوئی ہوائی جہاز ابھی تک وہاں نہیں پہنچا۔

غزہ سٹی کا ساحل سمندر، فلسطینیوں کی ’واحد تفریح گاہ‘

مصر کو خدشہ ہے کہ مصری دروازے کھولنے سے فلسطینیوں کو زبردستی بڑے پیمانے پر بے دخل کرنے کے اسرائیلی منصوبوں کو مزید تقویت مل سکتی ہے، جن میں سے بہت سے اب بے گھر ہیں، کھلے آسمان تلے سو رہے ہیں یا اقوام متحدہ کے خیموں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔