1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں متحدہ حکومت کا قیام، اوباما کا العبادی کو فون

عاطف بلوچ9 ستمبر 2014

عراقی پارلیمنٹ نے حیدر العبادی کی سرپرستی میں قومی متحدہ حکومت کی منظوری دے دی ہے۔ اس نئی حکومت کا پہلا بڑا چیلنج انتہا پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خطرے سے نمٹنا ہو گا۔ واشنگٹن نے اس پیشرفت کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1D921
تصویر: Ahmad Al-Rubaye/AFP/Getty Images

پیرآٹھ ستمبر کو عراقی پارلیمنٹ کے 328 میں سے 177 ارکان نے نئی متحدہ حکومت کی منظوری کے لیے ووٹ ڈالا۔ ملکی سیاسی بحران سے نمٹنے کے لیے شراکت اقتدار کی اس نئی ڈیل کی تجویز شیعہ اسلام پسند الدعوة پارٹی کے سربراہ حیدر العبادی نے پیش کی تھی۔ اس ڈیل کے تحت نائب وزرائے اعظم میں سنی اور کرد رہنما شامل ہیں۔

عراق میں اس نئی حکومت کے قیام کو امریکی صدر باراک اوباما نے اہم قرار دیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے نئے عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی سے بذریعہ ٹیلی فون گفتگو کی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر کی طرف سے کیے گئے اس ٹیلی فون میں انہوں ںے العبادی کو یقین دلایا کہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف واشنگٹن حکومت ان کے ساتھ ہے۔

Die syrische Stadt Raqqa nach der Einnahme durch den IS
عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی کا پہلا بڑا چیلنج انتہا پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خطرے سے نمٹنا ہو گاتصویر: Reuters

اس بیان میں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکی صدر نے عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی پر زور دیا ہے کہ وہ عراقی عوام کے جائز تحفظات کو دور کرنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدام کریں۔ وائٹ ہاؤس نے یہ بھی کہا ہے کہ العبادی نے صدر اوباما کو یقین دلایا ہے کہ بغداد حکومت نہ صرف عراق کے تمام طبقات کے ساتھ مل کر کام کرے گی بلکہ مشترکہ دشمن سے مقابلے کے لیے وہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بھی ہر ممکن کوشش کرے گی۔

یہ امر اہم ہے کہ عراق میں فعال اسلامک اسٹیٹ کے خلاف مزید کارروائی سے قبل امریکا نے شرط رکھی تھی کہ عراقی سیاستدان ملک میں ایک ایسی حکومت تشکیل دیں، جس میں تمام طبقوں کی مؤثر نمائندگی ہو۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی عراق میں متحدہ حکومت کی تشکیل کو ایک اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ’متحدہ عراق‘ عوام کے خواہشات کی تکمیل کے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔ واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس نئی حکومت میں اتنی سکت معلوم ہوتی ہے کہ وہ ملک کے تمام طبقات کو ساتھ ملاتے ہوئے ایک مضبوط ملک کی بنیاد رکھ سکے۔

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے بغداد سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ عراق کی نئی حکومت میں نائب صدور کے لیے سابق شیعہ وزیر اعظم نوری المالکی، سابق سنی پارلیمانی اسپیکر اسامہ النجفی اور سابق سیکولر شیعہ وزیر اعظم ایاد علاوی کا انتخاب کیا گیا ہے۔ عراقی سپریم کونسل سے وابستہ عادل عبدالمہدی کو آئل منسٹر جبکہ سابق وزیر اعظم ابراہیم جعفری کو وزیر خارجہ بنایا گیا ہے۔ دفاع اور داخلہ کی وزارتوں کے لیے ابھی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے تاہم العبادی نے کہا ہے کہ وہ جلد ہی قابل شخصیات کو ان عہدوں پر فائز کر دیں گے۔

وزیر اعظم حیدر العبادی نے مزید کہا کہ مسلح گروہوں اور دہشت گردوں کے خلاف ملکی فوج کی مسلسل حمایت کی جائے گی۔ انہوں نے اس عہد کا اظہار بھی کیا کہ فوج، سکیورٹی فورسز اور ریاستی انتظامیہ کے بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات کی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا، ’’میری اور میری نئی حکومت کی کوشش ہو گی کہ آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے وفاقی حکومت اور کردستان ریجن کے مابین پائے جانے والے تنازعات کو احسن طریقے سے دور کیا جا سکے۔‘‘

یہ امر اہم ہے کہ کرد ممبران پارلیمان نے العابدی کو عراقی بجٹ میں کرد ریجن کے حصے سمیت دیگر غیر معمولی اختلافات کو دور کرنے کے لیے تین ماہ کی مہلت دی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں