1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق ميں تشدد کی تازہ لہر، کم از کم 59 ہلاک

عاصم سليم7 جون 2014

عراقی شہر موصل ميں تازہ پر تشدد واقعات ميں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے ہيں۔ دريں اثناء صوبہ انبار ميں جنگجوؤں نے ايک يونيورسٹی پر دھاوا بولتے ہوئے کئی طلباء اور اساتذہ کو يرغمال بنا ليا، جنہيں بعد ازاں بازياب کرا ليا گيا۔

https://p.dw.com/p/1CEKM
تصویر: Getty Images/Afp/Azhar Shallal

عراق کے شمالی شہر موصل ميں سکيورٹی فورسز اور جنگجوؤں کے مابين جمعے سے جاری جھڑپوں ميں اب تک کم از کم 59 افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔ ہلاک شدگان ميں ایک پوليس ليفٹيننٹ جنرل سمیت 21 پوليس اہلکار اور 38 جنگجو شامل ہیں۔ اس دوران شہر سے مشرق کی جانب واقع ايک علاقے ميں دو خودکش بم دھماکوں کے ذريعے ايک اقليتی گروپ کو بھی نشانہ بنايا گيا۔

دريں اثناء عراقی صوبے انبار ميں مسلح جنگجوؤں نے آج ايک يونيورسٹی کے کيمپس پر دھاوا بول ديا۔ بتايا جا رہا ہے کہ جمعے کی رات سے جاری مسلح تصادم کے بعد جنگجو ہفتے کی صبح کيمپس ميں داخل ہونے ميں کامياب ہو گئے۔ ملکی حکام کے مطابق ان مسلح افراد نے کئی طلباء کو يرغمال بنا ليا تھا۔

عراق ميں رواں سال اب تک قريب 4,300 افراد ہلاک ہو چکے ہيں
عراق ميں رواں سال اب تک قريب 4,300 افراد ہلاک ہو چکے ہيںتصویر: Reuters

يہ واقعہ صوبائی دارالحکومت رمادی کے قريب واقع انبار يونيورسٹی ميں ہوا۔ ايک اور نيوز ايجنسی اے ايف پی نے رمادی سے موصولہ اپنی رپورٹوں ميں لکھا ہے کہ التشہ کے علاقے ميں قائم يونيورسٹی پر حملے ميں شدت پسند تنظيم ’اسلامی رياست برائے عراق و شام‘ کے جنگجو ملوث ہيں۔

اطلاعات ہيں کہ ملکی سکيورٹی دستوں نے کارروائی کرتے ہوئے طلباء کو بازياب کرا ليا ہے۔ عراق کے نائب وزير داخلہ عدنان الاسدی نے اپنے ايک ای ميل پيغام کے ذريعے بتايا کہ يونيورسٹی کے تمام طلباء کو بازياب کرا ليا گيا ہے۔ تاحال يہ واضح نہيں کہ آيا آپريشن ابھی تک جاری ہے۔ الاسدی نے بھی اپنے پيغام ميں يہ واضح نہيں کيا ہے کہ آيا ابھی بھی يونيوسٹی کے کچھ حصوں پر جنگجو قابض ہيں۔

يہ امر اہم ہے کہ رمادی کے چند حصوں پر حکومت مخالف جنگجو اور ديگر چند حصوں پر شدت پسند قابض ہيں اور يہ شہر کئی ماہ سے لڑائی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ دريں اثناء ايک روز قبل جنگجوؤں نے کارروائی کرتے ہوئے سمارا کے کئی علاقوں پر قبضہ کر ليا تھا۔

اقوام متحدہ کی جانب سے بتايا گيا ہے کہ صوبہ انبار ميں قريب 480,000 افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو چکے ہيں۔ پہلے بھی 1.1 ملين عراقی شہری نقل مکانی کر چکے ہيں۔

عراق ميں ان دنوں تشدد 2006ء اور 2007ء کے بعد اپنی بلند ترين سطح پر ہے۔ وہاں سنی مسلمانوں اور شيعہ مسلمانوں کے درميان جاری فرقہ وارانہ فسادات کے نتيجے ميں گزشتہ ماہ 900 سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔ ہلاک شدگان کے يہ اعداد و شمار اقوام متحدہ اور بغداد حکومت کی جانب سے مہيا کيے گئے ہيں۔ نيوز ايجنسی اے ايف پی کے مطابق عراق ميں رواں سال اب تک قريب 4,300 افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔

کئی اہلکار عراق ميں جاری اس خون خرابے کا ذمہ دار بيرونی عناصر کو بھی قرار ديتے ہيں، بالخصوص پڑوسی ملک شام ميں جاری خانہ جنگی کو۔ متعدد سياسی مبصرين عراق کی شيعہ حکومت کے خلاف وہاں کی اکثريتی سنی آبادی کے جذبات کو بھی ان واقعات کی ايک وجہ قرار ديتے ہيں۔