عراق: شیعہ، سنّی اور کرد اختلافات کا گڑھ
3 جنوری 2012اِن اختلافات میں اُس وقت شدت آئی، جب وزیر اعظم نوری المالکی نے امریکی فوجی دستوں کے ا نخلاء کے بعد سنّی نائب صدر طارق الہاشمی کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دیے۔ حکومت میں شامل مختلف سیاسی عناصر کے درمیان انتہا درجے کی بد اعتمادی پائی جاتی ہے اور المالکی کی مخلوط حکومت بقا کے خطرے سے دوچار نظر آتی ہے۔
جہاں المالکی نے سیاسی بے چینی کو کم کرنے کے لیے سیاسی استحکام کی اپیل جاری کی ہے، وہاں پارلیمان کے اسپیکر اُسامہ النجفی نے عراقیوں پر زور دیا ہے کہ وہ اختلافات بھلا کر اور مل جُل کر ملک کی تعمیر میں حصہ لیں۔ جنوری کے اواخر میں مجوزہ قومی کانفرنس سنّی سیاستدان النجفی اور کرد صدر جلال طالبانی کی تجویز پر منعقد ہونے والی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ سبھی فریق اُس میں شرکت کریں گے۔ جہاں تک المالکی کی جانب سے نائب صدر الہاشمی پر ڈَیتھ اسکواڈ منظم کرنے کے الزامات ہیں، بظاہر اُن کے تصفیے کے لیے عدالتوں سے رجوع کرنے پر اتفاق نظر آ رہا ہے۔
تاہم ایک شیعہ سیاستدان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اُسے اِس قومی مکالمت کے کوئی ٹھوس نتائج سامنے آنے کی توقع نہیں ہے۔ سنّی حمایت یافتہ جماعت العراقیہ بدستور پارلیمان کا بائیکاٹ جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ اگلے انتخابات 2014ء سے پہلے متوقع نہیں ہیں۔
نائب صدر الہاشمی کے معاملے میں وزیر اعظم المالکی نے جو طرزِ عمل اختیار کیا ہے، اُس پر جہاں کئی سنّی اراکینِ پارلیمان ا ور وُزراء کو اُن سے شکایات ہیں، وہاں کچھ شیعہ سیاستدان بھی اُن سے ناخوش ہیں۔ المالکی کا مطالبہ ہے کہ یا تو العراقیہ اپنے سینئر لیڈر طارق الہاشمی کو اپنی صفوں سے الگ کر دے یا پھر حکومت میں اپنی پوزیشن سے محروم ہو جائے۔ اس مسئلے پر العراقیہ کے اندر تقسیم شروع ہو چکی ہے۔
العراقیہ کے ساتھ چھوڑ جانے کی صورت میں المالکی اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے کردوں اور العراقیہ کا ساتھ چھوڑ جانے والے سنی اراکینِ پارلیمان کی جانب دیکھیں گے۔ سیاسی بے یقینی کی اِس فضا میں عراق میں جموریت کا تجربہ ناکامی سے بھی دوچار ہو سکتا ہے اور فرقہ وارانہ تنازعات بھی جنم لے سکتے ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: حماد کیانی