عام آدمی کا کھیل نہیں
2 جولائی 2008سن دو ہزار چار کی امریکی انتخابی مہم میں ایک اندازے کے مطابق ٹیلی وژن اشتہارات پر پانچ سو ملین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی گئی تھی۔ مگر رواں سال ہونے والے انتخابات میں تو یہ رقم ایک بلین ڈالر تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔
امریکہ میں نہ صرف یہ کہ جمہوریت ہے بلکہ امریکہ نے یہ زمہ داری بھی اپنے سر لی ہوئی ہے کہ وہ دنیا میں جہاں جمہوریت نہیں ہے وہاں بہر صورت جمہوریت کی شمع روشن کرے گا۔ امریکہ میں آج کل ایک دھوم اور مچی ہوئی ہے کہ پہلی بار ایک سیاہ فام امریکہ کاصدارتی امیدوار منتخب ہوا ہے اور عین ممکن ہے کہ وہ امریکی صدر بھی بن جائے۔ مگر امریکہ کی اس جمہوریت میں کتنے امریکی شہری اور ٹیکس دہندگان باراک اوباما اور جان میک کین کی طرح انتخابی مہم کے دوران صرف اشتہاروں پر اتنا پیسہ خرچ کر سکتے ہیں؟ اور کیا اس بات سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ زرائع ابلاغ کے بھر پور استعمال کے بغیر آج کے دور میں کوئی امریکہ کے صدارتی انتخابات جیت سکتا ہے؟
مگر امریکی صدارتی امیدواروں کے ساتھ یہ ٹیلی وژن انڈسٹری کے لیے بھی انتہائی منافع بخش کاروبار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکی صدارتی مہم کے باعث مجموعی طور پر مقامی ٹی وی چینلز سن دوہزار آٹھ میں اشتہارات پر دو تا تین فیصد اضافی منافع کمائیں گے جب کہ کیبل ٹی وی کے مالکان کے لیے مجموعی منافع میں چھ فیصد تک اضافہ ہو جائے گا۔
سی بی سی نیٹورک کے مطابق اس نے دو ہزار آٹھ کی پہلی سہ ماہی میں صرف سیاسی اشتہاروں کی مد میں تیس ملین ڈالر کمائے ہیں۔ نہ صرف ٹی وی مالکان، انتخابی مہم ان کمپنیوں کے لیے بھی منافع بخش کاروبار ہے جو باراک اوباما اور جان میک کین کی انتخابی مہم کے اخراجات اٹھا رہی ہیں۔ انٹرنیٹ پر بھی امریکی صدارتی امیدوار وں کے اشتہارات پیش کیے جا رہے ہیں۔ یو ٹیوب اس حوالے سے سب سے زیادہ منافع کما رہی ہے۔
باراک اوباما مئی کے اختتام تک اپنی انتخابی مہم کے لیے دو سو چھیاسی ملین ڈالر اکھٹے کر چکے تھے اور نومبر تک وہ مزید کئی سو ملین ڈالر جمع کر لیں گے۔ اوباما نے رپبلکن پارٹی کا گڑھ سمجھی جانے والی ریاستوں الاسکا، مونٹینا اور انڈیانا میں پہلے ہی سے مختلف ٹی وی اور ریڈیو چینلز پر نشریاتی وقت خرید لیا ہے۔ دونوں امیدوار انتخابی مہم پر روزانہ ڈھائی لاکھ سے تین لاکھ امریکی ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔