1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی قرض رپورٹ: دنیا کے ایک سو بائیس ممالک انتہائی مقروض

4 اپریل 2019

دنیا بھر میں اس وقت اتنے زیادہ ممالک انتہائی مقروض ہیں، جتنے پہلے کبھی نہیں تھے۔ یہ صورت حال جلد بہتر ہوتی نظر نہیں آتی۔ اس وقت ایک سو بائیس ریاستیں قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہیں۔ افریقی ممالک کی حالت تو انتہائی بری ہے۔

https://p.dw.com/p/3GE06
تصویر: AFP/Getty Images/L. Gouliamaki

عالمی سطح پر مختلف ممالک کو درپیش قرضوں کی انتہائی سنگین صورت حال سے متعلق یہ تفصیلات ’قرض رپورٹ 2019ء‘ یا Debt Report 2019 میں بتائی گئی ہیں، جو جوبلی جرمنی نامی ادارے نے جرمن دارالحکومت برلن میں بدھ تین اپریل کو پیش کی۔

Logo der Weltbank in Washington USA
تصویر: picture-alliance/dpa

اس رپورٹ کی تیاری کے عمل میں ماہرین کی طرف سے دنیا کے 154 ممالک کو درپیش مالیاتی مسائل کا جائزہ لیا گیا، جن میں سے 122 ریاستیں ’خطرناک حد تک مقروض‘ پائی گئیں۔

مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ 2017ء میں خطرناک حد تک مقروض ممالک کی تعداد 119 تھی، جو آج 2019ء میں مزید تین ریاستوں کے اضافے کے ساتھ 122 ہو چکی ہے۔

جوبلی جرمنی ایک ایسی تنظیم ہے، جس میں سول سوسائٹی اور کلیسائی تنظیموں کے نمائندہ کئی گروپ شامل ہیں۔ یہ تنظیم اپنے طور پر تجزیوں، لابی اور مشاورت کے ذریعے اس کوشش میں ہے کہ عالمی سطح پر بےتحاشا قرضوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل ختم ہونا چاہییں۔

اس رپورٹ کے مطابق دنیا کا سب سے پسماندہ اور کم ترقی یافتہ براعظم سمجھے جانے والے افریقہ میں تو بہت سے ممالک کو درپیش قرضوں کی بحرانی صورت حال اتنی شدید ہو چکی ہے کہ اب ان ممالک نے اپنے ذمے قرضوں کی واپسی کے لیے پریشان ہونا اور کوئی کوششیں کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔

جوبلی جرمنی کے ماہرین کے مطابق عالمی سطح پر قرضوں کی یہ صورت حال اتنی ناامید کر دینے والی ہے کہ اس کی وجہ سے ہر جگہ اندھیرا ہی نظر آتا ہے۔ مزید تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ یہ صورت حال مستقبل قریب میں بہتر ہوتی نظر نہیں آتی اور یہ رجحان بظاہر جاری رہے گا۔

’سستے قرضے‘ بھی ایک بڑی وجہ

جوبلی جرمنی کی اس رپورٹ کے مصنفین کے مطابق قرضوں کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر اس پریشان کن صورت حال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ضرورت مند اور غریب ممالک کو مختلف عالمی تنظیموں اور امیر ریاستوں کی طرف سے جو رقوم قرض کے طور پر فراہم کی جاتی ہیں، ان کے لیے شرح سود اتنی کم رکھی جاتی ہے کہ ان قرضوں کو ’سستے قرضوں‘ کے طور پر بیچا جاتا ہے۔

لیکن اس کا نقصان یہ ہے کہ ایسے سستے قرضے لینے والے بہت سے ممالک ایسا کرتے ہوئے اپنے ممکنہ وسائل سے بھی زیادہ بڑی چھلانگ لگا لیتے ہیں اور یوں ایک ایسے جال میں پھنس کر رہ جاتے ہیں، جس سے نکلنا ان کے لیے کبھی ممکن ہی نہیں ہوتا۔

قرضوں پر پابندی اور معافی کا مطالبہ

برلن میں جوبلی جرمنی کے ایک مرکزی عہدیدار کلاؤس شِلڈر نے صحافیوں کو بتایا کہ اس وقت عالمی سطح پر مختلف ممالک کی مدد کے لیے نہ صرف دیوالیہ پن کے خلاف ایک مؤثر نظام کی ضرورت ہے بلکہ قرض دہندہ اداروں اور امیر ریاستوں کو انتہائی مقروض ممالک کو نئے قرضے دینے پر پابندی لگاتے ہوئے ان کے ذمے زیادہ تر قرضے معاف بھی کر دینا چاہییں۔

شِلڈر نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ افریقہ میں موزمبیق جیسے ممالک کو انتہائی ڈرامائی صورت حال کا سامنا ہے۔ اس ملک کی حالت اتنی خراب اور وہاں مالی وسائل کی اتنی کمی ہے کہ مارچ کے وسط میں آنے والے ایک تباہ کن طوفان کے بعد سے وہاں قریب دو ملین متاثرہ انسانوں کی کوئی قابل ذکر مدد نہیں کی جا سکی۔

چین نے بےتحاشا قرضے دیے

اس رپورٹ کے مطابق سن 2000ء سے لے کر 2017ء تک چین نے براعظم افریقہ کے ممالک کو ان کے ہاں بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر اور دیگر منصوبوں کے لیے جتنے قرضے دیے، ان کی مجموعی مالیت 143 ارب یورو یا 161 ارب امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔

Pakistan Wechselstube auf der Straße
تصویر: picture-alliance/epa/A. Gulfam

کلاؤس شِلڈر کے بقول اس کے باوجود چین افریقہ کے قرضوں سے متعلق مسائل کے حوالے سے کوئی ’بہت برا ملک‘ اس لیے نہیں ہے کہ بیجنگ حکومت اسی عرصے میں بہت سے افریقی ممالک کے ذمے بےتحاشا قرضے معاف بھی کر چکی ہے۔

’زیادہ خطرات عالمی بینک، آئی ایم ایف اور یورپی فنڈ سے‘

اس رپورٹ کے مطابق دنیا کے 122 انتہائی مقروض ممالک کو اس وقت جن حالات کا سامنا ہے، ان میں سے زیادہ تر مسائل کی وجہ عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف اور یورپی ترقیاتی فنڈ جیسے اداروں کی طرف سے دیے جانے والے وہ قرضے ہیں، جو آج بھی روایتی طریقہ کار اور شرائط کے تحت دیے جاتے ہیں۔ افریقہ کے علاوہ ایشیا میں منگولیا، بحرین اور لبنان اور جنوبی ایشیا میں بھوٹان اور پاکستان جیسے ممالک کو بھی اس وقت ریاستی قرضوں کی انتہائی سنگین صورت حال کا سامنا ہے، جو ان ممالک کی معیشتوں کے لیے بہت صبر آزما ثابت ہو رہی ہے۔

جان شیلٹن / م م / ع ا

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں