1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ٹرمپ عالمی نظام کو خطرے میں ڈال رہے ہیں‘

9 جون 2018

جی سیون ممالک کے رہنما اس اجلاس میں اب تک ایک مشترکہ بیان تک تیار نہیں کر پائے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مابین بڑھتی خلیج نے تجارت اور ’ورلڈ آرڈر‘ کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2zDD4
G7 Gipfel in Charlevoix Kanada Trump PK
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Vucci

کینیڈا میں جاری دنیا کے سات امیر ترین اور صنعتی ممالک کی جی سیون سمٹ کے دوران اس مرتبہ ’چھ جمع ایک‘ کی اصطلاح سب سے زیادہ استعمال کی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مرتبہ کی سمٹ میں چھ ممالک ایک طرف اور ایک ملک (یعنی امریکا) دوسری طرف کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔

آج ہفتہ نو جون کے روز اس اجلاس کا آخری دن ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سب سے آخر میں اس سربراہی اجلاس میں پہنچے تھے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق وہ سب سے پہلے واپس بھی جا رہے ہیں۔ نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق ٹرمپ نے اپنے طے شدہ وقت سے بھی پہلے واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ اس اجلاس میں عالمی ماحول کے بارے میں ہونے والی گفتگو میں شریک نہیں ہو رہے۔

آج کینیڈا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکا ’منصفانہ تجارت‘ کا خواہش مند ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے ’امریکا کا فائدہ‘ اٹھایا جاتا رہا ہے۔ ٹرمپ کے مطابق انہوں نے ’ٹیرف فری تجارت‘ کی تجویز پیش کی ہے۔

سمٹ کے دوران اب تک امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کے مابین جن امور پر نمایاں اختلافات دکھائی دے رہے ہیں ان میں عالمی تجارت، تحفظ ماحولیات اور ایران کے ساتھ طے شدہ جوہری معاہدہ شامل ہیں۔

امریکا کی جانب سے یورپی ممالک سے بھی اسٹیل کی درآمد پر اضافی محصولات عائد کیے جانے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے ٹرمپ نے اسے ’قومی سلامتی‘ کے لیے ضروری قرار دیا۔ تاہم کینیڈا سمیت دیگر ممالک اسے عالمی تجارتی نظام کی خلاف ورزی، غیر قانونی اور تجارتی جنگ سے تعبیر کر رہے ہیں۔

جمعے کے روز اجلاس کے پہلے دن کے اختتام پر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ پہلے روز ’بہت پیش رفت‘ ہوئی ہے۔ لیکن درحقیقت امریکا اور مغربی اتحادیوں کے مابین خلیج بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔

امید کی جا رہی تھی کہ سمٹ کے دوران یہ اتحادی بظاہر ہی سہی، لیکن ایسا کوئی تاثر دے پائیں گے کہ اختلافات کے باوجود معاملات بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ تاہم صدر ٹرمپ نے سمٹ میں روس کو شامل کیے جانے کی بات کر کے معاملات کو مزید پیچیدہ کر دیا۔ یورپی اتحادیوں نے صدر ٹرمپ کی اس تجویز کو مشترکہ طور پر مسترد کر دیا۔

یورپی اتحادیوں کی شدید مخالفت کے باوجود صدر ٹرمپ نے آج بھی اپنے بیان میں کہا کہ ’روس کی سمٹ میں واپسی فائدہ مند‘ ثابت ہو گی۔

ماضی کے اجلاسوں میں مشترکہ اعلامیہ پہلے سے تیار ہوتا تھا۔ تاہم اب کی بار ابھی تک دنیا کے سات امیر اور صنعتی ممالک کے سربراہ مشترکہ اعلامیہ تک نہیں تیار کر پائے ہیں۔ اے ایف پی نے وائٹ ہاؤس کے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اب بھی امید کی جا رہی ہے کہ صدر ٹرمپ کی لا مالبائی سے رخصتی سے قبل مشترکہ اعلامیے کی پر کوئی اتفاق رائے طے پا سکتا ہے۔

عالمی نظام کو خطرہ

یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک بھی اس سمٹ میں یورپی یونین کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ تجارت، ایران جوہری ڈیل اور عالمی ماحول کے تحفظ جیسے مسائل پر ٹرمپ اور دیگر ممالک کے مابین واضح اختلافات ہیں۔

ٹسک کا کہنا تھا، ’’اصولوں پر مبنی عالمی نظام کو چیلنج کیا جا رہا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسا کسی دشمن کی جانب سے نہیں، بلکہ ان اصولوں کو بنانے اور تحفظ کرنے والے ملک یعنی امریکا کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔‘‘

انہوں نے خبردار کیا کہ امریکی صدر کے اس رویے کے فائدہ ان قوتوں کو ہو گا جو نیا ’بعد از یورپ‘ ایسا عالمی نظام بنانے کے خواہاں ہیں ’’جہاں لبرل جمہوریت اور بنیادی انسانی آزادی کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘

ش ح/ع ا (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید