’عالمی بینک ٹرانسفرز پر بھی این ایس اے کی نظر‘
15 اپریل 2017خبر رساں ادارے روئٹرز نے سائبر سکیورٹی ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ بینکوں کے مابین رقوم کی منتقلی کے سسٹم SWIFT ’سوفٹ‘ تک رسائی حاصل کرنے سے امریکی ایجنسی این ایس اے اس قابل ہوئی تھی کہ وہ لاطینی امریکا اور مشرقِ وسطی کے کچھ بینکوں کے درمیاں رقوم کی منتقلی پر نظر رکھ سکے۔
سائبر سکیورٹی کنسلٹنٹ شانے شُک کے مطابق ہیکرز نے اس حوالے سے بروز جمعہ جو دستاویزات جاری کیں، اُن میں وہ کمپیوٹر کوڈ بھی درج تھا، جسے جرائم پیشہ ہیکرز سوفٹ سرورز توڑنے اور رقوم کی منتقلی کے پیغام رسانی کے نظام پر نظر رکھنے کے لیے اپنی حسبِ منشا استعمال کر سکتے ہیں۔
یہ اہم دستاویزات اور فائلیں ہیکرز کے ایسے گروہ نے جاری کی ہیں، جو خود کو’ شیڈو بروکرز‘ کہتا ہے۔ اِن میں سے چند دستاویزات پر این ایس اے کی مہر بھی ثبت ہے تاہم نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق وہ اِن کی صداقت کی تصدیق نہیں کر سکی۔ امریکا کے قومی سلامتی کے ادارے سے اس حوالے سے فوری تبصرے کے لیے رابطہ نہیں کیا جا سکا۔
'ونڈوز‘ پروگرام کی خالق کمپنی ’مائیکرو سوفٹ‘ نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ اسے امریکی حکومت کی جانب سے متنبہ نہیں کیا گیا تھا کہ ایسی کوئی فائلیں موجود تھیں یا چوری ہو گئیں۔ مائیکروسوفٹ کا کہنا تھا،’’ نامہ نگاروں کے علاوہ کسی فرد یا تنظیم نے ہم سے بروکرز شیڈو کی طرف سے جاری کردہ مواد کے حوالے سے رابطہ نہیں کیا۔‘‘
حکام نے روئٹرز کو پہلے بتایا تھا کہ ’این ایس اے‘ شیڈو بروکرز کی اس کارروائی کے بارے میں کئی ماہ پہلے سے جانتی تھی لیکن اس کے باوجود کوئی وارننگ جاری نہیں کی گئی۔ شُک کا کہنا تھا کہ جرائم پیشہ ہیکرز اِن معلومات کی مدد سے بینکوں سے رُقوم چوری کر سکتےہیں۔
سائبر سکیورٹی کنسلٹنٹ شانے شُک نے گزشتہ برس بنگلہ دیش سینٹرل بینک میں ہونے والی ایک ایسی ہی سائبر ڈکیتی کا حوالہ بھی دیا، جس میں ہیکرز نے 81 ملین ڈالر کی غیرقانونہ اور ناجائز منتقلی کرا لی تھی۔ ہیکرز کی جانب سے جاری کردہ دستاویزات سے تاہم واضح طور پر یہ پتہ نہیں چلتا کہ آیا ’این ایس اے‘ نے سوفٹ میسیجز کی نگرانی کے لیے تمام تکنیکی طریقوں کا استعمال کیا تھا۔