1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی امور اور جرمن سیاستدانوں کا غیر فعال رویہ

عابد حسین18 ستمبر 2013

اقتصادی اعتبار سے جرمنی یورپ میں سر فہرست ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ہونے والی صنعتی ترقی میں اسے ڈرائیونگ فورس خیال کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود جرمنی عالمی امور میں محتاط کردار کا حامل ہے۔

https://p.dw.com/p/19juX
تصویر: AP

جرمنی کو براعظم یورپ کا غیر متنازعہ لیڈر تسلیم کیا جاتا ہے اور اِس سیاسی و اقتصادی قوت کے باوجود عالمی معاملات میں کچھ زیادہ فعال دکھائی نہیں دیتا۔ اگلے اتوار کے روز ہونے والے الیکشن کے بعد بھی اِس کردار میں کوئی تبدیلی پیدا ہونے کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ اس حوالے سے حکمران قدامت پسند طبقے کی نمائندہ چانسلر انگیلا میرکل اور بائیں بازو کے اہم حریف کے ساتھ ساتھ بیشتر ملکی آبادی بھی ایسی کوئی خواہش نہیں رکھتی کہ جرمنی یورپ یا عالمی سطح پر ایک نمایاں لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔

عالمی معاملات اور جرمن کردار کا یہ پہلو 22 ستمبر کو ہونے والے پارلیمانی الیکشن کی انتخابی مہم کے دوران پس پشت ر ہا ہے اور انتہائی غیر اہم معاملات مثلاً ٹیکس کی شرح میں اضافہ یا قومی سطح پر کم از کم روزگار کی شرح وغیرہ پر زور شور سے گفتگو جاری رہی۔

جرمن لیڈران نے انتخابات کی مہم میں یورپ میں جرمنی کے کردار یا مشترکہ کرنسی یورو پر کسی بھی سطح پر بہت کم گفتگو کی۔ البتہ انتخابی مہم کے دوران جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور اسی منصب کے امیدوار پیئر اشٹائن برُوک نے شام میں کسی بھی فوجی کارروائی میں جرمن شمولیت کو ضرور اہمیت دی۔

Merkel Wahlplakat in Berlin
جرمن لیڈران نے انتخابات کی مہم میں یورپ میں جرمنی کے کردار یا مشترکہ کرنسی یورو پر کسی بھی سطح پر بہت کم گفتگو کیتصویر: Reuters

دوسری عالمی جنگ کے اختتام کو 68 برس گزر گئے ہیں اور پہلی مرتبہ اب جرمنی کئی دہائیوں بعد یورپ کے ہیوی ویٹ فرانس کے ہم پلہ ہو چکا ہے۔ عالمی جنگ کے دوران جرمن جارحیت سے متاثر ہونے والے ملک بھی چاہتے ہیں کہ اب جرمنی یورپ میں اپنے قائدانہ کردار کوکھل کر سنبھالے۔ پولستانی وزیر خارجہ راڈک سیکاروسکی (Radek Sikorski) نے سن 2011 میں جرمن سامعین کے سامنے کہا تھا کہ انہیں اب جرمن قوت سے خوف نہیں لیکن وہ جرمنی کے پوری طرح متحرک نہ ہونے سے خوف زدہ ہیں۔ اِدھر جرمن چانسلر انگیلا میرکل یہ خواہش ضرور رکھتی ہیں کہ چین اور دوسری ابھرتی اقتصادیات کے مقابلے میں براعظم یورپ بھی ابھرے لیکن اِس مناسبت سے ان کی جانب سے کوئی جامع تصور یا عملی پلان بھی سامنے نہیں آیا ہے۔

یورپ میں چانسلر میرکل کو ایک انتہائی محتاط سیاستدان کے طور پر لیا جاتا ہے۔ وہ اِس براعظم کے مالیاتی بحران کے حل کے لیے بھی مرحلہ وار قدم اٹھاتے ہوئے منطقی انداز میں اس کے حل پر یقین رکھتی ہیں۔ اس دوران وہ جرمن خزانے پر بھی مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔

مبصرین کے مطابق برلن حکومت کے محتاط کردار کی وجہ سے دوسری یورپی اقوام کو قدرے مایوسی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یورپی کونسل کی خارجہ امور کے شعبے سے وابستہ اُلریکے گُوروٹ (Ulrike Guerot) کا خیال ہے کہ برلن حکومت کی مشکل حالات میں قائدانہ صلاحیتیں سیاسی بصیرت سے دور دکھائی دیتی ہے۔ جرمنی کے اس پس پشت رہنے کے کردار پر پائی جانے والی تشویش یورپی براعظم سے باہر نکل چکی ہے۔ امریکی تھنک ٹینک رانڈ کارپوریشن کے ریسرچر کرس شیویس کا جرمنی کے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ایک اہم رکن کے حوالے سے امریکی بےچینی کا احاطہ کرتے ہوئے کہنا ہے کہ واشنگٹن بین الاقوامی سکیورٹی امور میں جرمنی کے بڑے کردار کا متمنی ہے۔ مجموعی طور پر کئی بین الاقوامی معاملات میں جرمنی کا کردار خاصا محتاط رہا ہے۔