1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’طاہر القادری کی تحریک کو آسانی سے کُچلنا ممکن نہیں رہا‘

تنویر شہزاد، لاہور18 جون 2014

پولیس اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں میں ہونے والے خوفناک تصادم کے بعد ابھی تک صورتحال معمول پر نہیں آسکی ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر نو ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1CLBw
تصویر: Reuters

پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں واقعہ ماڈل ٹاؤن کے خلاف آج ملک کے مختلف شہروں میں یوم سوگ منایا گیا، اس موقع پر احتجاجی دھرنے دیے گئے اور ہلاک ہونے والوں کی مغفرت کے لیے دعائیہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ ادھر جناح ہسپتال میں اس کارروائی میں زخمی ہونے والے لوگوں کا علاج جاری ہے، بدھ کی صبح وہاں زیر علاج ایک بیس سالہ زخمی بچے کی وفات کے بعد اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد نو تک پہنچ چکی ہے۔ ماڈل ٹاون میں پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹیریٹ میں تعزیت کے لیے آنے والے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔

اس واقعے کے خلاف احتجاج کرنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی ایک رکن قومی اسمبلی طاہرہ آصف کو بدھ کی دوپہر نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے گولیاں مار کر شدید زخمی کر دیا، لاہور کے ایک مقامی ہسپتال میں ڈاکٹر طاہرہ آصف کی جان بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

طاہرالقادری کے بیٹے کے خلاف بھی مقدمہ درج

دوسری جانب لاھور پولیس نے فیصل ٹاؤن تھانے کے ایس ایچ او کی مدعیت میں واقعہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ اس مقدمے میں قتل اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت پاکستان عوامی تحریک کے باون کارکنوں کے علاوہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے بیٹے حسین محی الدین قادری کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ ابتدائی تحقیقات میں پولیس نے نو افراد کو بے گناہ قرار دے دیا ہے جبکہ چوالیس افراد کو ریمانڈ کے لیے جمعرات کے روز انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

Auseinandersetzungen zwischen Polizei und Demonstranten in Lahore, Pakistan
تصویر: Reuters

پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی نے تحقیقات مکمل ہونے سے قبل ہی عوامی تحریک کے کارکنوں کے خلاف مقدمے کے اندراج کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ شہباز شریف کے استعفے کے بغیر مظلوموں کو انصاف نہیں مل سکتا۔

پنجاب حکومت کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں ایک رکنی تحقیقاتی ٹربیونل تشکیل دے دیا ہے لیکن پاکستانی عوامی تحریک عدالتی تحقیقات کو پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔

واقعہ ماڈل ٹاون کے بعد پنجاب حکومت نے لاہور پولیس کے سربراہ چوہدری شفیق گجر، ڈی آئی جی آپریشن رانا عبدالجباراور ایس پی ماڈل ٹاؤن طارق عزیز کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن نے اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس کی غیر جانبدرانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور اپیل کی ہے کہ اس واقعے کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے اور نہ ہی لاشوں پر سیاست کی جائے۔

پاکستان کے سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے ایک تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان حالات میں پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچا ہے، ’’اس کی مقبولیت میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے، قبائلی علاقوں میں آپریشن کے آرمی کے فیصلے سے بھی حکومت کی کمزوری ظاہر ہو رہی ہے۔ اب حکومت طاہر القادری کی حکومت مخالف تحریک کو آسانی سے کچل نہیں سکے گی۔ کیونکہ پاکستان مسلم لیگ نون کی طاقت کے اصل مرکز پنجاب اور لاہور میں اس جماعت کی مخالفت بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘

ان کے بقول دلچسپ بات یہ ہے کہ اقتدار مسلم لیگ نون کے پاؤں کے نیچے سے پھسل رہا ہے اور فوج یہ اقتدار سنبھالنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس لیے پاکستان میں آئینی فریم ورک میں رہتے ہوئے قیادت کی تبدیلی کا امکان موجود ہے، ان کے مطابق فوج کی قبائلی آپریشن میں کامیابی کی صورت میں اسے اپنی مرضی کا سیٹ اپ لانے میں عالمی برادری کی طرف سے بھی سپورٹ مل سکتی ہے۔