طالبان کے ساتھ امن کی تلاش میں کرزئی اسلام آباد پہنچ گئے
26 اگست 2013نواز شریف کے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کرزئی کے ساتھ ان کے یہ پہلے مذاکرات ہیں۔ ایک ایسے وقت میں، جب 87 ہزار کے قریب نیٹو فوجی اگلے برس افغانستان سے واپس جانے کی تیاریوں میں ہیں، اس دورے کو دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد اور مخاصمانہ تعلقات کو بہتر کرنے کی خواہش سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے۔
حامد کرزئی اپنے دورے کے دوران پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے روبرو ملاقات میں دوطرفہ تعلقات، افغان مفاہمتی عمل اور علاقائی صورتِ حال پر بھی تبادلہء خیال کر رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق وہ افغان طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے پاکستان سے مدد طلب کریں گے۔ افغان صدر کی طرف سے مفاہمتی پالیسی کے تحت حکومت پاکستان سے مزید طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی متوقع ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاکستانی ریاست کے بعض عناصر پر طالبان کو مالی وسائل کی فراہمی، انہیں پناہ دینے اور انہیں کنٹرول کرنے کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں تاہم اسلام آباد کی طرف سے کھلے عام اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں لڑائی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہے۔
رواں برس جون میں جب امریکی کوششوں سے طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوہا میں اپنا رابطہ دفتر قائم کیا تھا تو اس پر افغان صدر حامد کرزئی کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ صدر کرزئی کا اصرار تھا کہ کسی بھی قسم کے امن مذاکرات میں ان کی حکومت کو مرکزی کردار حاصل ہونا چاہیے۔ تاہم طالبان کی طرف سے کرزئی یا ان کی حکومت کے کسی نمائندے کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے انکار کر دیا گیا تھا۔ طالبان کرزئی کو امریکی کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق صدر حامد کرزئی اسلام آباد کے قریبی ایئرفورس کے بیس پر پاکستان کے مقامی وقت کے مطابق صبح 10 بجے کے قریب پہنچے، جہاں خارجہ معاملات میں پاکستانی وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے ان کا استقبال کیا۔
نواز شریف کے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کرزئی کے ساتھ ان کے یہ پہلے مذاکرات ہیں۔ اس حوالے سے ہفتے کے روز کابل میں پریس کانفرنس کے دوران صدر کرزئی کا کہنا تھا، ’’پاکستان کے ساتھ بات چیت کا پہلا نقطہ امن مذاکرات ہوں گے۔‘‘
اس موقع پر انہوں نے ’’استحکام اور امن کے لیے تمام تر درست ارادے‘‘ رکھنے پر پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی تعریف بھی کی۔ تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ قبل ازیں ان کے پاکستان کے دورے افغانستان میں سکیورٹی بہتر کرنے کے حوالے سے مددگار ثابت نہیں ہوئے۔