1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کی خواتین پر نئی پابندیاں، یو این کے خدشات مسترد

27 اگست 2024

طالبان کے ترجمان نے یو این افغان مشن کی سربراہ کے خواتین سے متعلق مزید سخت ملکی قوانین پر خدشات کو ’متکبرانہ‘ قرار دیا۔ روزا اوتن بائیفا نے خواتین پر نئی پابندیوں کو افغانستان کے مستقبل کے لیے ’پریشان کن‘ قرار دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/4jy65
طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان میں خواتین پر سختیوں اور پابندیوں کا اطلاق شروع کر دیا تھا
طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان میں خواتین پر سختیوں اور پابندیوں کا اطلاق شروع کر دیا تھا تصویر: Yaghobzadeh Alfred/ABACA/picture alliance

افغانستان میں حکمران طالبان نے اپنے نئے اور مزید سخت  قوانین، جن کے تحت انہوں نے اخلاقی ضابطوں کا تعین کیا ہے، پر اقوام متحدہ کے خدشات اور تنقید کو مسترد کر دیا ہے۔

 ان قوانین کے تحت افغانستان میں خواتین کو عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانپے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور  عوامی مقامات پر ان کے بولنے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔

انسانی اور خواتین کے حقوق کی عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ طالبان کی حکمرانی میں  ہر گزرتے دن کےساتھ خواتین کی عوامی سطح پر موجودگی کا خاتمہ ہوتا جا رہا ہے
انسانی اور خواتین کے حقوق کی عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ طالبان کی حکمرانی میں ہر گزرتے دن کےساتھ خواتین کی عوامی سطح پر موجودگی کا خاتمہ ہوتا جا رہا ہے تصویر: Fareed Khan/AP Photo/picture alliance

 اقوام متحدہ کے افغان مشن (یو این اے ایم اے) کی سربراہ  روزا اوتن بائیفا نے اتوار کے روز اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ قوانین افغانستان کے مستقبل کا ایک ''پریشان کن منظر‘‘ پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ قوانین خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر ''پہلے ہی عائد ناقابل برداشت پابندیوں‘‘ کی توسیع ہیں، یہاں تک کہ ان کے تحت ''خواتین کی آواز‘‘ گھر سے باہر سنائی دینےکو بھی بظاہر غیر اخلاقی  قرار دیا گیا ہے ۔

 طالبان حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کے روز جاری کردہ ایک بیان میں ان افراد کو''تکبر‘‘ کے خلاف متنبہ کیا، جو ان کے بقول اسلامی قانون سے واقف نہیں ہیں، خاص طور پر وہ غیر مسلم افراد جو ان قوانین پر تحفظات یا اعتراضات کا اظہار کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ''ہم ان قوانین کو مکمل تفہیم اور اسلامی اقدار کے احترام کے ساتھ تسلیم کرنے پر زور دیتے ہیں۔ ہمارے خیال میں بغیر سمجھے ان قوانین کو مسترد کرنا تکبر کا اظہار ہے۔‘‘

افغانستان میں طالبان نے گزشتہ بدھ کو برائی کی حوصلہ شکنی اور نیکی کو فروغ دینے کے لیے ملک میں قوانین کا پہلا مجموعہ جاری کیا تھا۔

طالبان کو بین الااقوامی سطح پر سب سے زیادہ تنقید کا سامنا لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے بعد سے کرنا پڑ رہا ہے
طالبان کو بین الااقوامی سطح پر سب سے زیادہ تنقید کا سامنا لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے بعد سے کرنا پڑ رہا ہےتصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliane

انہی میں سے ایک قانون کے تحت عورت کے لیے گھر سے باہر  اپنا چہرہ، جسم اور آواز چھپانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہ قوانین جانداروں کی تصاویر پر بھی پابندی عائد کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی نمائندہ  اوتن بائیفا  کا اس حوالے سے کہنا تھا، ''کئی دہائیوں کی جنگ کے بعد اور ایک خوفناک انسانی بحران کے درمیان، افغان عوام اس سے کہیں بہتر کے مستحق ہیں کہ نماز کے لیے دیر کرنے، مخالف جنس سے تعلق رکھنے والے کسی ایسے فرد پر نگاہ ڈالنے جو ان کے خاندان کا فرد نہیں  یا کسی عزیز کی تصویر رکھنے پر انہیں  دھمکیاں دی جائیں یا  جیل میں ڈال دیا جائے۔‘‘

یواین اے ایم اے  کے اس بیان کے جواب میں مجاہد نے مزید کہا، ''ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مختلف حلقوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے خدشات امارت اسلامیہ کو اسلامی قانون کی پاسداری اور نفاذ کے عزم سے باز نہیں رکھ سکتے۔‘‘

عام طور پر طالبان پر عوامی سطح پر تنقید سے گریز کرنے والے ملک جاپان  نے بھی ان قوانین میں خواتین پر عائد پابندیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔  کابل میں قائم جاپانی سفارت خانے نے پیر کے روزسوشل میڈیا پلیٹ فارم نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ وہ طالبان حکام پر زور دیتا رہے گا کہ وہ ملک کے مستقبل کے لیے ''تعلیم، ملازمت اور نقل و حرکت کی آزادی کے لیے افغان خواتین اور لڑکیوں کی آواز کو سنیں۔‘‘

ش ر⁄ م ا (اے پی)

افغانستان میں صنفی تعصب کے خلاف جرمنی میں بھوک ہڑتال