طالبان کے افغانستان پر ماسکو میں عالمی کانفرنس
20 اکتوبر 2021دس مختلف ممالک کے حکام افغان طالبان کے ساتھ ایک بین الاقوامی کانفرنس کر رہے ہیں۔ یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں منعقد کی گئی، جب روسی صدر پوٹن نے خبردار کیا کہ داعش کے جنگجو افغانستان میں طاقت جمع کرنے کی کوشش میں ہیں۔
روس نے اس عالمی کانفرنس کا اہتمام کیا ہے۔ بدھ کو ہونے والی اس کانفرنس کو ماسکو حکومت کی طرف سے وسطی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے ایک اقدام کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
روسی حکام نے عالمی برداری پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں داعش کے خلاف اپنے ایکشن میں فوری طور پر تیزی لائے۔ روس کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی عمل داری کے بعد سے یہ دہشت گرد تنظیم اس وسطی ایشیا ملک میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے، جو ایک تشویش ناک بات ہے۔
داعش سے لاحق خطرات
گزشتہ ہفتے ہی روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے خبردار کیا تھا کہ افغانستان میں جمع ہونے والے داعش کے جنگجو سابقہ سوویت ریاستوں کے علاوہ روس میں بھی داخل ہو سکتے ہیں۔
خفیہ معلومات کی بنیاد پر پوٹن نے کہا تھا کہ اس وقت شمالی افغانستان میں داعش کے حامی کم ازکم دو ہزار جنگجو موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ داعش کے رہنما ان جنگجوؤں کو مہاجرین کے بھیس میں ہمسایہ ممالک روانہ کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
بھارت افغانستان میں کیا چاہتا ہے؟
ماسکو کلانفرنس کی اہمیت
روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے ماسکو کانفرنس کو اپنے خطاب انتہائی اہم قرار دیا گیا ہے۔ طالبان کی طرف سے اس جنگجو گروپ کے مقرر کردہ عبوری نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی طالبان کے وفد کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ حنفی یورپی یونین اور امریکا کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں بطور اہم ممبر بھی شریک ہو چکے ہیں۔
اس کانفرنس سے قبل ہی چین اور پاکستان نے ماسکو حکومت کو یقین دلایا تھا کہ وہ افغانستان میں سلامتی کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے۔ دوسری طرف یورپی یونین نے بھی افغانستان میں انسانی بحرانی صورتحال سے نمٹنے کی خاطر اور ہمسایہ ممالک کو مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک بلین یورو کی خطیر امداد فراہم کرنے کا عہد کیا ہے۔
ماسکو طالبان کو تسلیم نہیں کرے گا
ماسکو حکومت نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کو فی الحال تیار نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو کے نمائندے ایرون ٹیلٹن کے مطابق فی الوقت یہ معاملہ روسی حکومت کی ترجیح نہیں ہے کہ وہ طالبان حکومت کو سرکاری اور باقاعدہ طور پر تسلیم کر لے۔ انہوں نے کہا ہے کہ روسی حکومت طالبان کو اب بھی ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتی ہے۔
روس کا کہنا ہے کہ طالبان نے اپنی نئی حکومت میں صرف اپنے جنگجوؤں کو ہی شامل کیا ہے اور اس میں افغانستان میں موجود دیگر نسلی اور سیاسی گروپوں کو کوئی جگہ نہیں دی گئی، جو دراصل طالبان کی طرف سے کیے گئے وعدوں کی ایک کھلی خلاف ورزی ہے۔
واضح رہے کہ روسی حکومت نے حالیہ برسوں میں طالبان کے نمائندوں کو متعدد مرتبہ ماسکو مدعو کیا، جہاں ان کے ساتھ مذاکرات کیے تاہم روس کیہ طرف سے بنائی گئی دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں طالبان تحریک کا نام اب بھی موجود ہے۔
روسی وزیر خارجہ کے مطابق افغان طالبان کے ساتھ مذکرات اور روابط قائم کرنے کا مقصد دراصل اس علاقے میں انسانی بحرانی صورتحال سے بچنا ہے۔
ع ب / ع ح ( لی کارٹر)