1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کی ’موسم بہار کی لڑائی‘ کا آغاز، اکیس افراد ہلاک

امتیاز احمد13 مئی 2014

افغان طالبان نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک بھر میں حملے کیے ہیں، جن کے نتیجے میں کم از کم اکیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ حملے افغان سکیورٹی فورسز کے لیے بھی ایک کڑا امتحان ثابت ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/1Bya4
تصویر: T.White/AFP/Getty Images

افغانستان میں سرد موسم کے خاتمے اور موسم بہار کے آتے ہی طالبان عسکریت پسندوں کے حملوں میں شدت آ جاتی ہے۔ چند روز پہلے افغان طالبان نے غیر ملکی افواج کے خلاف ’فیصلہ کن کارروائیاں‘ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ مبصرین کی رائے میں اعلان کے ایک ہفتے بعد پے در پے حملے ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان نے جو اعلان کیا تھا، وہ کوئی مزاق نہیں تھا۔

طالبان کے حملوں کا آغاز ایک راکٹ سے ہوا جو بگرام ایئر بیس پر داغا گیا۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد ایک راکٹ حملہ دارالحکومت کابل کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر کیا گیا۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق یہ دونوں حملے بڑی حد تک علامتی تھے اور ان سے نقصان بھی کم ہوا۔

گزشتہ روز ہی تین طالبان عسکریت پسندوں نے مشرقی شہر جلال آباد میں وزارت انصاف کی عمارت کو نشانہ بنایا۔ حکومتی ترجمان ضیاء عبدالزئی کے مطابق وہ دو پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرتے ہوئے عمارت کے اندر داخل ہونے میں کامیاب رہے۔ اس کے بعد افغان فورسز نے عمارت کو گھیرے میں لے لیا اور طالبان نے عمارت کے اندر سے ان پر فائرنگ کی۔ یہ دو طرفہ فائرنگ کا سلسلہ تقریبا ساڑھے چار گھنٹے جاری رہا۔ اس واقعے میں وزارت انصاف کے پانچ اہلکار اور تینوں حملہ آور مارے گئے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے طالبان قیدیوں کے خلاف جلدی میں فیصلے سنانے کا بدلہ قرار دیا۔

اسی طرح طالبان نے صوبہ ہلمند میں ایک پولیس چوکی کو نشانہ بنایا ، جس کے نتیجے میں کم ازکم نو پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ صوبہ پروان میں بھی ایک راکٹ حملہ کیا گیا۔ یہ راکٹ ایک مارکیٹ میں جا گرا۔ اس حملے کے نتیجے میں دو شہری ہلاک اور چار زخمی ہوئے۔ طالبان نے اس حملے کی بھی ذمہ داری قبول کی ہے۔ دوسری جانب موٹر سائیکل پر سوار مسلح حملہ آوروں نے شہر غزنی میں بھی پولیس چیک پوائنٹ کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں دو خواتین اور ایک پولیس اہلکار مارا گیا۔ ابھی تک کسی بھی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

افغان فورسز کے لیے امتحان

دوسری جانب رواں برس ہونے والے طالبان حملوں کو افغان سکیورٹی فورسز کے لیے ایک ٹیسٹ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ رواں برس کے اختتام تک غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی۔ اسے سال کے اواخر تک تقریباﹰ 30 ہزار امریکی فوجی مقامی فورسز کا ساتھ دیں گے لیکن 2001ء کے بعد امریکی فوجیوں کی یہ کم ترین تعداد ہو گی۔ گزشتہ برس بھی بہت سے مشنز کی کمانڈ افغان فورسز کے ہاتھ میں تھی اور یہی وجہ تھی کہ سن 2013ء میں افغان فوجیوں کی ریکارڈ ہلاکتیں ہوئیں۔ تنظیم انٹرنیشنل گروپ کے مطابق گزشتہ برس تقریباﹰ 8200 افغان اہلکار مارے گئے تھے۔

چند روز پہلے کیے گئے اعلان میں طالبان نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ غیر ملکی فوجیوں کے علاوہ افغان مترجمین، حکومتی اہلکاروں اور سیاستدانوں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ طالبان نے ’رواں سیزن‘ کے حملوں کو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک قدیم جنگ ’خیبر‘ کا نام دیا ہے۔

افغان سیاسی تجزیہ کار عباس نویان کا کہنا ہے کہ سوموار کے روز ہونے والے حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان اب بھی خلل ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن انہوں نے اس دعوے کو مسترد کیا کہ یہ حملے طاقت کا مظاہرہ تھے، ’’یہ طاقت کا مظاہرہ نہیں تھا کیونکہ ان کے پاس مزید طاقت نہیں رہی۔ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں اور مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔‘‘

عباس نویان کے مطابق یہ حملے گزشتہ موسم بہار کے آغاز پر کیے جانے والے حملوں سے بدتر نہیں تھے۔