طالبان کی جانب سے حکومتی تجاویز پر مثبت اور حوصلہ افزا جواب
10 فروری 2014دو روز تک شمالی وزیرستان میں کسی نامعلوم مقام پر طالبان کی قیادت سے براہ راست بات چیت کے بعد کمیٹی کے ارکان پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ پیر کے روز واپس پہنچ گئے۔
طالبان کمیٹی کے رابطہ کار مولانا یوسف شاہ نے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے ملاقات کی اور انہیں اپنے دورے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ انہیں طالبان کی جانب سے ملنے والے رد عمل پر نہایت خوشی ہے۔ انہوں نے اس بارے میں مزید کچھ بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب باتیں امانت ہیں اور وہ پہلے انہیں حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سامنے رکھیں گے۔
سمیع الحق نے کہا کہ یہ قومی مسئلہ ہے اور اس پر کسی کو بھی جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ صحافیوں کے اصرار کے باوجود مولانا نے صرف اتنا کہنے پر ہی اکتفا کیا، ’’ان دو روزہ مذاکرات کے الحمد للہ بڑے مثبت نتائج اور ردعمل سامنے آ رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو حکومت کی نامزد کردہ چار رکنی کمیٹی نے جو چار تجاویز یا مطالبات رکھے تھے، ان مطالبات پر بھی طالبان کی جانب سے حوصلہ افزا جواب آیا ہے۔‘‘
مولانا سمیع الحق نے مذاکرات کی کامیابی کے لیے ایک مرتبہ پھر دعا کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ کل یا پرسوں حکومتی کمیٹی کے اراکین سے ملاقات کریں گے۔
جماعت اسلامی KPK کے امیر اور وزیرستان جانے والے طالبان کمیٹی کے دورکنی وفد میں شامل پروفیسر ابراہیم نے امید ظاہر کی کہ طالبان اور حکومت کے درمیان معاملات پر اتفاق کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پیر کے روز پشاور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قوم کو بیتابی سے خوشخبری کا انتظار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جاری دس سالہ بد امنی جلد اختتام کو پہنچے گی۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا عمل حساس مرحلے میں داخل ہو گیا ہے اور میڈیا پر جاری ہونے والے طالبان کے مطالبات درست نہیں۔ پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ طالبان قیادت نے چند وضاحتیں طلب کی ہیں جو حکومت کے سامنے رکھی جائیں گی۔
دوسری جانب پاکستانی ایوان بالا سینیٹ میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت اور طالبان کے مذاکرات سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں پارلیمنٹ کا ان کیمرا اجلاس بلایا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پارلیمنٹ میں مذاکرات کے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر بریفنگ کا اہتمام بھی کیا جائے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ ہر کوئی آئین کی اپنی تشریح کر رہا ہے لیکن وزیر اعظم ایوان میں آ کر پالیسی بیان نہیں دے رہے۔
دریں اثناء بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس راولپنڈی میں جاری ہے۔ فوج کے صدر دفاتر میں ہونے والی اس کانفرنس میں داخلی سلامتی اور خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔ عسکری ذرائع کے مطابق حکومت اور طالبان کے درمیان اب تک ہونے والی پیشرفت پر بھی بات چیت کی جائے گی۔