1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان سے مذاکرات ميں جرمنی کا اہم کردار

13 جنوری 2012

ايک دو سال قبل طالبان کے ساتھ مذاکرات کو جرمنی ميں خارج از بحث سمجھا جاتا تھا ليکن اب جرمنی افغانستان کے تنازعے ميں الجھے ہوئے فريقين کے درميان ثالثی کی کوششوں ميں بھر پور طور پر مصروف ہے۔ ماہر سياسيات ہپلر کا انٹر ويو۔

https://p.dw.com/p/13j2v
افغانستان امن مذاکرات کے دوران صدر کرزئی
افغانستان امن مذاکرات کے دوران صدر کرزئیتصویر: AP

اس وقت برلن ميں طالبان کے سرکاری اور غير سرکاری نمائندوں کی آمد کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ کيا برلن طالبان سے امن مذاکرات کا مرکز بن جائے گا؟

ہِپلر نے کہا کہ يہ حقيقت ہے کہ جرمنی نے پچھلے برسوں کے دوران ثالث کے طور پر ايک مثبت کردار ادا کرنے کے ليے بار بار علاقے ميں اپنے روابط سے فائدہ اٹھايا ہے۔ طالبان اب خليجی عرب رياست قطر ميں اپنا جو رابطہ دفتر قائم کر رہے ہيں، اس ميں بھی جرمنی کی ثالثی کوششوں کا عمل دخل ہے۔

ہپلر نے کہا کہ افغانستان ميں جرمنی سے ايک تاريخی دوستی پائی جاتی ہے۔ ثالثی کے ليے جرمنی کے متبادل بہت کم ہيں۔ امريکہ ايسا اس ليے بھی نہيں کر سکتا کہ وہ طالبان کا مخالف اہم ترين جنگی فريق ہے۔ برطانيہ نے 19 ويں اور 20 ويں صدی ميں افغانستان کے خلاف تين جنگيں لڑی تھيں۔ اس ليے وہ بھی ثالثی نہيں کرا سکتا۔ اکثر افغانوں کو علاقائی يا مغربی طاقتوں کے مقابلے ميں اب بھی جرمنی پر زيادہ اعتبار ہے۔

افغان امن مذاکرات
افغان امن مذاکراتتصویر: AP

کيا جرمنی ثالثی کی يہ کوششيں اپنی مرضی سے کر رہا ہے يا امريکہ کے دباؤ پر؟

اس کے جواب ميں ہپلر نے کہا کہ اُن کا تاثر يہ ہے کہ جرمنی کم ازکم سن 2009 سے خود اپنے طور پر ثالثی کی کوششيں کر رہا ہے۔ اُس وقت تک امريکہ نے طالبان سے بات چيت کے ليے کسی قسم کے منصوبے نہيں بنائے تھے۔ ليکن اس دوران يہ واضح ہو چکا ہے کہ امريکہ، کسی نہ کسی طرح ايک حد تک افغانستان سے صحيح سلامت نکلنے کے ليے، اس قسم کی بات چيت کے منصوبوں کی حمايت کر رہا ہے۔

چند سال پہلے تک جرمنی طالبان سے بات چيت کی سخت مخالفت کر رہا تھا۔ تو پھر اب يہ تبديلی کيسے آئی؟

اس کے جواب ميں ہپلر نے کہا کہ اس کی بالکل سيدھی سادی وجہ يہ ہے کہ افغانستان سے متعلق سياسی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے۔ امريکہ اور يورپ کے سياسی ذمہ دار اب يہ سمجھ چکے ہيں کہ افغانستان کے تنازعے کو فوجی طور پر حل نہيں کيا جا سکتا۔ دوسری طرف يہ بھی تسليم کيا جا رہا ہے کہ صدر کرزئی تنہا ملک ميں امن قائم کرنے کے قابل نہيں ہيں۔ وہ ايسےساتھی نہيں ہیں، جنہیں تمام فريق تسليم کرتے ہوں۔ اس ليے جرمنی کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہيں تھا کہ وہ غير روايتی راہيں اختيار کرے، يعنی سخت گير طالبان ليکن اُن کے علاوہ طالبان کے مخالف شمالی اتحاد سے بھی بات چيت کرے۔ جرمنی بھی اپنے فوجيوں کو صحيح سلامت افغانستان سے واپس لانا چاہتا ہے۔

ايک مشکل مسئلہ يہ بھی ہے کہ افغانستان ميں بہت سنگين جرائم کا ارتکاب کرنے والے وار لارڈز اور بدترين مجرم جزوی طور پر حکومت ميں ہيں اور يا وہ حکومت سے باہر طاقتور عناصر ہيں، جن سے بات نہ کرنے کا مطلب تنازعے کو بات چيت کے ذريعے حل نہ کرسکنا ہو گا۔ ان حالات ميں افغانستان ميں مکالمتی فريقوں کے انتخاب کے اعلٰی اخلاقی معيارات کی پابندی بہت مشکل ہے۔

افغان طالبان
افغان طالبانتصویر: AP

ہپلر نے کہا کہ اگر جرمنی کسی حل تک پہنچنے ميں کامياب ہو جاتا ہے تو امريکہ، پاکستان يا افغانستان کے ليے اس کی پابندی لازمی نہيں ہو گی۔ جرمنی کا کام صرف فريقين کے درميان بات چيت کو ممکن بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی کرزئی حکومت کمزور، بد عنوان اور کرپٹ ہے اور خود افغان عوام بھی اسے تسليم نہيں کرتے۔ اس وقت تنازعے کے فريق اپنی اپنی پوزيشن کو مضبوط بنانے ميں مصروف ہيں۔ طالبان يہ سمجھتے ہيں کہ وہ جلد يا بدير اس جنگ ميں فاتح کی حيثيت سے ابھريں گے۔

ہپلر نے کہا کہ يہ مذاکرات اس ليے بھی ضروری ہيں کيونکہ طالبان کو عالمی سطح پر تسليم کر ليے جانے کی ضرورت ہے۔ صدر کرزئی امريکہ پر اپنے عدم انحصار کا اظہار کرنا چاہتے ہيں۔ ليکن اُن کی کمزور حکومت امن قائم نہيں کر سکتی۔ اس کے ليے ايک طاقتور حکومت کی ضرورت ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں