طالبان سے بات بہت پہلے ہونی چاہیے تھی، برطانوی جنرل
29 جون 2013برطانوی جنرل کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب طالبان کے ساتھ خلیجی ملک قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کی ایک تازہ کوشش کامیاب ثابت نہیں ہو سکی۔ جنرل نِک کارٹر Nick Carter نے برطانوی اخبار گارڈیئن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کا ایک اہم موقع اس وقت کھو دیا گیا جب طالبان اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد دفاعی پوزیشن پر تھے۔ طالبان کی حکومت نائن الیون حملوں کے بعد امریکی سربراہی میں افغانستان پر ہونے والی لشکر کشی کے بعد ختم کر دی گئی تھی۔
گارڈیئن سے گفتگو کرتے ہوئے کارٹر کا کہنا تھا، ’’طالبان جان بچا کر بھاگ رہے رہے تھے۔ اس مرحلے پر اگر ہم دور اندیشی سے کام لیتے تو شاید ہم بالآخر سیاسی حل تک پہنچ جاتے۔ اس وقت ہمیں تمام افغانوں کو ایک ساتھ میز پر جمع کرکے ان سے ان کے مستقبل کے بارے میں بات کرنی چاہیے تھی۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی سربراہی میں افغانستان میں تعینات بین الاقوامی فوج کے کمانڈر کے نائب کارٹر نے یہ بات تسلیم کی کہ افغانستان کی مشکلات ایک سیاسی مسئلہ ہیں اور یہ کہ ان کے حل کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ اس سے وابستہ لوگ آپس میں اس پر بات چیت کریں۔
طالبان کے ساتھ پر امن طور پر مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کا حل اب افغان حکومت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی طاقتوں کی بھی ترجیح بن چکا ہے، ایک ایسے وقت میں جب ایک طرف بین الاقوامی افواج افغانستان سے نکلنے کی تیاریوں میں ہیں تو دوسری طرف ملک کے مختلف حصوں میں طالبان حملوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
قطر میں طالبان کی طرف رابطہ دفتر قائم کرنے کا مقصد طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنا تھی، تاہم ان کی طرف سے اس دفتر پر ’افغانستان کی اسلامی امارت‘ کا بورڈ لگائے جانے سے اس پر سفارتی کشیدگی پیدا ہو گئی۔ طالبان 1996 سے 2001 تک قائم رہنے والی اپنی حکومت کے لیے یہ نام استعمال کرتے تھے۔
افغان صدر حامد کرزئی کی طرف سے اس پر شدید احتجاج کیا گیا کہ اس دفتر سے یہ اشارہ ملتا ہے جیسے یہ جلاوطن حکومت کا سفارت خانہ ہو۔ اس صورتحال میں نہ صرف امریکیوں کے ساتھ طالبان کے ابتدائی مذاکرات نہ ہو پائے بلکہ سرے سے امن عمل کے بائیکاٹ کا خطرہ پیدا ہو گیا۔
امریکی صدر باراک اوباما کی طرف سے حال ہی میں کہا گیا ہے کہ اس کے باوجود مذاکرات کے راستے میں کئی مشکلات حائل ہو سکتی ہیں تاہم افغانستان میں جاری تشدد کے خاتمے کا محض یہی ایک طریقہ ہے۔