طالبان اور افغان نمائندوں کی غیر رسمی ملاقات پاکستان میں
4 مارچ 2016جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے دو خفیہ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ موسم گرما میں ناکام ہونے والے امن مذاکرات کے بعد افغان حکام اور طالبان کے نمائندوں کے مابین یہ پہلی براہ راست ملاقات ہو گی۔ ذرائع کے مطابق یہ ملاقات آئندہ چند روز میں پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں ہوگی۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک اہل کار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’ابھی تک کوئی تاریخ تو مقرر نہیں کی گئی لیکن یہ ملاقات دو سے تین روز میں ہونے جا رہی ہے۔‘‘
یہ ملاقات افغان امن عمل کے لیے سرگرم چہار فریقی گروپ کے کابل میں ہونے والے حالیہ اجلاس کے بعد ہونے جا رہی ہے۔ اس گروپ میں امریکا، چین، پاکستان اور افغانستان شامل ہیں۔ یہ چاروں ممالک افغان طالبان پر افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کے لیے ذور دیتے آئے ہیں۔
نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق یہ ملاقات افغانستان کے پندرہ سالہ تنازعے کے خاتمے کے لیے ایک روڈ میپ ثابت ہو سکتی ہے۔ قبل ازیں افغان طالبان کے نمائندوں نے گزشتہ موسم گرما میں افغان حکومت کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات کی تھی لیکن یہ امن مذاکرات طالبان کے سابق رہنما ملا عمر کی ہلاکت کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد ختم ہو گئے تھے۔
ملاقات کے لیے انتظامات کرنے والے پاکستان کے ایک خفیہ عہدے دار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ یہ مذاکرات وہاں سے ہی شروع ہونے جا رہے ہیں، جہاں سے ان کا سلسلہ منقطع ہوا تھا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے کابل حکومت کی طرف سے امن مذاکرات کی دعوت ملنے کے بعد سے طالبان کی رہبری شوریٰ کوئٹہ میں چند ایک ملاقاتیں کر چکی ہے۔
ان خفیہ ذرائع کا کہنا تھا کہ طالبان کے نئے سربراہ ملا اختر منصور نے اپنے گروپ کو مذاکرات میں شرکت کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس اجلاس میں طالبان کا ملا محمد رسول کی قیادت میں کام کرنے والا دھڑا بھی اپنے نمائندے بھیج سکتا ہے۔
طالبان کے ساتھ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہونے جا رہی ہے، جب عملی طور پر وہ افغانستان کے اہم اضلاع پر قبضہ کرتے جا رہے ہیں اور دارالحکومت کابل میں غیرملکیوں اور فوجیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔