طالبان امن مذاکرات بھی جاری اور دہشت گردی بھی
11 فروری 2014حکومتی کمیٹی کے رابطہ کار عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ طالبان قیادت کی جانب سے حوصلہ افزا اشارے ملے ہیں۔ لیکن دوسری جانب ان حوصلہ افزا مذاکرات کے ساتھ ساتھ دہشتگردانہ کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایک روز قبل شمالی وزیرستان میں طالبان قیادت سے مشاورت کے بعد واپس لوٹنے والے طالبان کمیٹی کے ارکان نے منگل کو اسلام آباد میں حکومتی کمیٹی کے ارکان سے ملاقات کی۔
طالبان کمیٹی سے ملاقا ت کے بعد حکومتی کمیٹی کے رکن عرفان صدیقی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ طالبان کی کمیٹی نے کچھ باتیں ہمارے سامنے رکھی ہیں جن پر آئندہ نشست میں غور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان قیادت سے ملاقات کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ اطمینان بخش ہیں۔ انہوں نےامید ظاہر کی کہ اسی احتیاط اور عزم کے ساتھ آگے بڑھتے رہے تو آنے والے دنوں میں قوم کو اچھے اشارے ملیں گے۔
طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ انہوں نے کچھ وضاحت طلب باتیں اور ماحول کو سازگار اور امن کی فضا بنانے کے لیے چند تجاویز حکومتی کمیٹی کے سامنے رکھی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’دونوں جانب سے فائر بندی کی تجویز ہے اس پر بھی آگے چل کر بات ہو گی اور انشا ءاللہ جلد اس کی نوبت بھی آجائے گی۔‘‘
دوسری جانب پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ہم دعاگو ہیں کہ پاکستان میں جاری اندرونی مفاہمت کا عمل کامیاب ہوتا کہ قبائلی اور سرحدی علاقوں میں امن ہو سکے۔ اسلام آباد میں ایک تھنک ٹینک کی جانب سے ’’ پاکستان، نیٹو تعلقات 2014ء کے بعد‘‘ کے عنوان سے منعقدہ دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں مفاہمت کاعمل کامیاب ہوا تو اس کو افغانستان میں بھی شروع کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’پحھلے پینتیس سال سے اس علاقے میں بد امنی، دہشتگردی ہے اور جنگ جاری ہے۔ اگر ہم آپس میں مل کر یعنی افغانستان اور پاکستان کے مابین جو اپنے معاملات ہیں ان کو گھر میں بیٹھ کر حل کر لیں تو میرے خیال میں یہ بہتریں ہو گا۔ باہر کے حل کبھی دیرپا نہیں ہوتے"۔
ادھر منگل کے روز شورش زدہ صوبے خیبر پختوانخواہ کے دارالحکومت مسلسل دوسرے روز بھی دہشتگردانہ حملوں کا نشانہ بنا۔ شہر کے معروف شمع سینما میں یکے بعد دیگرے تین بم دھماکوں میں گیارہ افراد ہلاک اور 22 زخمی ہو گئے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاجی عدیل نے پارلیمنٹ ہاوس اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال پر اپنا مؤقف واضح کریں اگر ان کا کوئی گروپ ان دہشتگردانہ حملوں میں ملوث ہے تو اس کا نام بتایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ "سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ ماحول کیوں پیدا کیا جا رہا ہے۔ حکومت تو ایسا نہیں کر رہی حکومت نے تو میرا خیال ہے کہ ابھی تک کوئی آپریشن نہیں کیا۔ ہمیں نہیں پتا چلا کہ کوئی ٹارگٹڈ آپریشن بھی ہوا ہے کہ نہیں اور طالبان کو اس پر سوچنا چاہیے"۔
طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ مذاکرات کے دوران اس طرح کی کارروائیاں کرنے والے ہمارے خیر خواہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان اس طرح کے حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ حملے وہ طاقتیں کر رہی ہیں جو مذاکرات کے عمل کو سبو تاژ کرنا چاہتی ہیں۔