صوفیاء کرام سے مخالفت: طالبان تاریخی ورثے کو تباہ کر رہے ہیں
21 دسمبر 2011گزشتہ برسوں کے دوران انتہاپسند طالبان نے پاکستان میں اسکول تباہ کیے، میوزک کی دکانوں کو بموں سے اڑا دیا، مخالفین کو کھلے عام بربریت کے ساتھ قتل کیا اور ویڈیوز بنائیں۔ یہ سارے وحشیانہ اقدامات ہیں لیکن ایک تاریخی ورثے کی حامل مزارات کی مسماری ایک ایسا عمل ہے جسے شاید کسی صورت بھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ خیبر ایجنسی کے دکاندار آفاق علی نے بتایا کہ تین سال قبل تک وہ طالبان کو اچھا مسلمان سمجھتا تھا اور اسی وجہ سے وہ ان کا حامی بھی تھا۔ تاہم جب طالبان نے صوفیاء کرام کی درگاہوں کو تباہ کرنا شروع کیا تو اس کی سوچ تبدیل ہو گئی۔ علی نےکہا کہ شیخ بہادر بابا اور شیخ نسا بابا کی مزارات کو بموں سے اڑانا ایک ناقابل برداشت عمل ہے۔ اس کے بقول علاقے کے بہت سارے لوگ طالبان کے حامی ہوا کرتے تھے، ان کی مالی امداد بھی کیا کرتے تھے۔ تاہم ان واقعات کے بعد لوگ ان سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ ’’علاقے میں اب طالبان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے‘‘۔
طالبان نے 2005ء سے صوفیاء اور شعراء کی مزارات کو مختلف انداز میں مسمار کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ طالبان اپنے آپ کو وہابی سوچ کا حامی کہتے ہوئے ان تمام درگاہوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔ پاکستان بھر میں اس دوران ایک صدی پرانی تقریباً 25 مزارات کو حملے کرتے ہوئے تباہ کیا گیا۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے مفتی غلام نبی کہتے ہیں کہ طالبان میں مختلف سوچ رکھنے والے افراد موجود ہیں۔ ان میں سے وہابی گروپ چاہتا ہے کہ لوگ مزاروں کا رخ نہ کریں۔ اسی وجہ سے یہ حملے کیے جاتے ہیں تاکہ لوگوں میں خوف پیدا ہو۔ مفتی غلام نبی کہتے ہیں طالبان کے بقیہ دھڑے صوفیاء کرام کی عزب و تکریم کرتے ہیں۔
اسلامی اسکالر مولانا غلام رسول کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان میں صرف اہل الحدیث فرقہ ایسا ہے، جو مزارات کے خلاف ہے۔ ورنہ تحریک میں شامل دیگر فرقے اس طرح کی کارروائیوں کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اہل الحدیث مزاروں پر حاضری دینے کو غیر اسلامی تصورکرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ خدا سے اس کی رحمت طلب کرنے کے لیے کسی وسیلے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ خدا کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔ مولانا غلام رسول کے بقول یہ بات حقیقت ہے کہ ان حملوں نے طالبان کے خلاف نفرت میں اضافہ کیا ہے۔
سعودی عرب کی حکومت وہابی عقیدے کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے اور وہ اس مقصد کے لیے مساجد اور اسکول کی تعمیرات میں مالی تعاون فراہم کرتی ہے۔ 2005ء میں جب بری امام کی مزار پرحملہ ہوا تو کسی کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ ایسا بھی کوئی کر سکتا ہے۔ 2006ء میں طالبان نے مہمند ایجنسی میں حاجی صاحب تُرنگزئی کے مزار قبضہ کرتے ہوئے اسے اپنے مرکزی دفتر میں تبدیل کر دیا تھا۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تاہم جب صوفی شاعر عبدالرحمن بابا کے مزار کو تباہ کیا گیا تو لوگوں نے سِرعام طالبان پر ملامت کا سلسلہ شروع کر دیا۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراطلاعات میاں افتخار حسین نے بتایا کہ ان کی حکومت نے مزارات کی دوبارہ تعمیر کے لیے آٹھ لاکھ ڈالر مختص کیے ہیں۔ مستقبل میں ایسے حملوں کی روک تھام کے لیے وہاں سکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: عابد حسین