صوبہ سرحد کا نیا نام 'خیبرپختونخوا'
1 اپریل 2010اس پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر رضا ربانی نے اس حوالے سے کہا ہے کہ مسودے کی تیاری کے عمل میں کمیٹی کے ہر رکن کا کردار بہت اہم رہا، کیونکہ اس کے بغیر کوئی اتفاق رائے ممکن ہی نہ ہوتا۔ اس آئینی ترمیمی مسودے میں جہاں ججوں کی تقرری کے لئے کیمشن میں ایک اضافی ممبر کی رکنیت تجویز کی گئی ہے، وہیں پر صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔
پاکستانی آئین میں اٹھارویں ترمیم کے اس مسودے پر25 مارچ کو دستخط کئے جانا تھے لیکن مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے کہا تھا کہ ججوں کی تقرری کے طریقہ کار اور صوبہ سرحد کے نام پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ عوامی نیشنل پارٹی ایک عرصے سے اس صوبے کے نام کی تبدیلی کا مطالبہ کر رہی تھی اور پشاور میں موجودہ صوبائی اسمبلی بھی اس حوالے سےایک قرارداد منظور کر چکی ہے۔ ماضی میں بھی، جب مرکز میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پشاور میں قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی اور نون لیگ کی مخلوط حکومت قائم تھی، تو بھی پختونخوا کے مسئلے پر اے این پی حکومت سے علٰیحدہ ہو گئی تھی۔
عوامی نیشنل پارٹی پختونخوا صوبے کے حوالے سے کسی بھی قسم کی لچک سے انکاری تھی، لیکن گزشتہ سال امریکہ کے دورے سے واپسی پر اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی نے یہ کہا تھا کہ وہ پختونخوا کے علاوہ افغانیہ یا پختونستان کے نام پر بھی راضی ہیں۔ صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھے جانے کو اے این پی اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور آئینی اصلاحات سے متعلق پاکستان کی قومی اسمبلی کی کمیٹی کے رکن سینیٹر حاجی محمد عدیل کہتے ہیں کہ قومی اسممبلی میں ان کی پارٹی کی صرف 19 نشستیں ہیں، لیکن پھر بھی پارٹی کے لئے اپنا مطالبہ منوا لینا اس کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
آئینی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی میں شامل مسلم لیگ (ق) کےارکان نے پختونخوا کے نام کی مخالفت کرتے ہوئے کئی دیگر نام بھی تجویز کئے تھے۔ مسلم لیگ (ق) کے سرحد میں صوبائی صدر امیر مقام کا خیال ہے کہ اس نام سے صوبے میں لسانی مسئلہ پیدا ہوگا جو دیگر زبانیں بولنے والوں میں احساس محرومی کی وجہ بنے گا۔ عوامی نیشنل پارٹی کا مؤقف اس سے مختلف ہے۔ یہ پارٹی کہتی ہے کہ جس صوبے کی 75 فیصد آبادی پشتو بولتی ہو اور جہاں ہندکو بولنے والوں کو بھی پختونخوا کے نام پر کوئی اعتراض نہ ہو، تو پھر لسانی مسئلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں پی ایم ایل (ن)، جے یو آئی، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ 63 سال بعد پاکستان میں پختونوں کو ان کی شناخت مل گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج 1973 کے آئین میں کیا گیا وعدہ بھی پورا ہوگیا ہے جس کے لئے ہر پختون صدر آصف زرداری کا احسان مند ہے۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھنے سے افغانستان اور پاکستان میں عظیم تر پختونستان کے قیام سے متعلق نعرہ ایک بار پھر سر اٹھا سکتا ہے، کیونکہ افغانستان نے ابھی تک پاکستان کے ساتھ قومی سرحد کا کام دینے والی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا۔ سینیٹر رضا ربانی کے بقول ان کی کوشش ہو گی کہ1973 کے آئین کی اصلی دستاویز کو سامنے رکھتے ہوئے ایک جمہوری پاکستان کی بنیاد رکھی جائے۔
رپورٹ: بخت زمان
ادارت: مقبول ملک