1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدیوں تک کروڑوں انسانوں کا غلام بنایا جانا، تلافی کی حمایت

19 ستمبر 2023

اقوام متحدہ کے مطابق ماضی میں صدیوں تک کروڑوں افریقی باشندوں کو غلام بنائے جانے کے حوالے سے مختلف ممالک کو مالی تلافی کا سوچنا چاہیے۔ اس ادارے کے مطابق اس عمل کے لیے آج تک کسی ملک کو پوری طرح جواب دہ نہیں بنایا جا سکا۔

https://p.dw.com/p/4WXwc
آئیوری کوسٹ کے باشندے ماضی میں غلاموں کی تجارت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے، چند برس پہلے کی ایک علامتی تصویر
ماضی میں آئیوری کوسٹ کے مقامی باشندوں کا غلاموں کے طور پر بیرون ملک لے جایا اور بیچا جانا، چند برس قبل ایک علامتی احتجاج کی ایک تصویرتصویر: Sia Kambou/AFP/Getty Images

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کی طرف سے منگل 19 ستمبر کے روز  پیش کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ افریقہ سے تعلق رکھنے والے انسانوں کو صدیوں تک غلام بناتے رہنے کے ''تاریخی حد تک غیر منصفانہ عمل‘‘ کے ازالے کے لیے ممکنہ اقدامات میں یہ بات بھی شامل ہو سکتی ہے کہ اس عمل کی مالی تلافی کی جائے۔

صدیوں تک انسانوں کو غلام بنانے پر نیدرلینڈز معافی مانگے گا

خاص طور پر اس لیے بھی کہ اس عمل کے مرتکب افراد اور اس کا نشانہ بننے والے انسانوں کی شناخت کا آج صدیوں بعد تعین اپنی جگہ ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ اس کے علاوہ بہت زیادہ وقت گزر جانے کے باعث اس حوالے سے متاثرین کی موجودہ نسلوں کی طرف سے ممکنہ قانونی دعووں کا ایک انتہائی پیچیدہ عدالتی عمل ثابت ہونا بھی اب لازمی سی بات ہے۔

دنیا میں پانچ کروڑ لوگ 'جدید غلام'، رپورٹ

غلاموں کو پہنائی جانے والی ہتھکڑیوں کی ایک مثال، برطانیہ میں لیورپول کے بین الاقوامی عجائب گھر میں رکھے ہوئے شواہد میں سے ایک
گھانا میں غلاموں کو ایسی ہتھکڑیاں اور زنجیریں پہنا کر قید میں رکھا اور پھر یورپ لایا جاتا تھا، غلامی سے متعلق برطانیہ میں لیورپول کے بین الاقوامی عجائب گھر میں رکھے ہوئے شواہد میں سے ایکتصویر: Russell Contreras/AP Photo/picture alliance
پیرس میں غلامی کے دور کے خلاف چند اہم علامتی یادگاروں میں سے ایک
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں قائم غلامی کے دور کے خلاف ایک علامتی یادگارتصویر: Sonia Phalnikar/DW

چار صدیوں سے بھی زائد عرصے پر محیط ظالمانہ عمل

اقوام متحدہ کے سربراہ گوٹیرش نے اپنی اس رپورٹ میں کہا ہے کہ 400 سال سے بھی زائد عرصے تک افریقہ سے مجموعی طور پر 25 ملین سے لے کر 30 ملین تک انسانوں کو ان کے آبائی علاقوں سے لا کر بطور غلام ان کی تجارت کی جاتی رہی۔ یہ عمل تاریخی حد تک اتنا ظالمانہ تھا کہ اس ''ماضی کی موجودہ میراث‘‘ کا بھی اب جامع انداز میں سامنا کرنے کی ضرورت ہے۔

ساحل خطے میں صدیوں سے جاری غلامی کی اذیت، ابھی تک ختم نہ ہوسکی

انٹونیو گوٹیرش کے مطابق کروڑوں انسانوں کو غلام بنا کر رکھنے کے اس عمل کے لیے آج تک کسی ایک بھی ملک کو باقاعدہ اور جامع طور پر جواب دہ بھی نہیں بنایا جا سکا۔

رپورٹ کے مطابق، ''اس وقت مروجہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے تحت تلافی کی ان کوششوں کا ایک حصہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اقتصادی نقصانات کا تخمینہ لگا کر مالی ازالے کی رقوم کا تعین کیا جائے۔‘‘

ہندو دیوی کے نام پر جنسی غلام بن کر رہنے والی بھارتی خواتین

نیدرلینڈز: ایمسٹرڈم میں قائم غلامی کے دور کے خلاف تنبیہ کرنے والی ایک یادگار
نیدرلینڈز کے شہر ایمسٹرڈم میں غلامی کے دور کے خلاف ایک انتباہی یادگارتصویر: Remko de Waal/ANP/AFP
بیلجیم کی افریقی نوآبادی کانگو میں غلامی کے دوران مشقت کے باعث اپاہج ہو جانے والے افراد
ربر کی پیداوار کے عمل میں بیلجیم کی ایک نوآبادی کے طور پر افریقی ملک کانگو میں غلامی کے دوران اپاہج ہو جانے والے تین افرادتصویر: picture-alliance/dpa/Everett Collection

’قانونی ذمے داریوں سے انکار ممکن نہیں‘

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اپنی اس رپورٹ میں مزید کہا ہے، ''نوآبادیاتی نظام اور انسانوں کو غلام بنائے جانے کا عمل تاریخی حد تک شدید زیادتیوں اور متاثرین کے لیے نقصانات و مصائب کا سبب بنے۔ اب ہر انفرادی واقعے میں ظالم اور مظلوم کا تعین کرنا انتہائی مشکل ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ ازالے کے لیے کسی قانونی دعوے کی کامیاب تکمیل کی راہ میں حائل بہت بڑی رکاوٹوں کا مطلب یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ اس عمل کے ذمے داران پر عائد ہونے والی قانونی ذمے داریوں ہی سے انکار کر دیا جائے۔‘‘

خلیجی ممالک میں غلامی کی تاریخ

انسانوں کو غلام بنانے کی ظالمانہ روایت کے تناظر میں زر تلافی کی ادائیگی اور ایسے دیگر ممکنہ اقدامات کے مطالبے بین الاقوامی سطح پر کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ ان مطالبات کی بھی اب اپنی ایک تاریخ ہے، جن میں حالیہ برسوں میں زیادہ تر افریقہ اور بحیرہ کریبیین کی ریاستوں سے اٹھنے والی آوازوں کے باعث شدت آ چکی ہے۔

مدفون اطالوی شہر پومپئی میں غلاموں کے کمرے کی دریافت

1873ء: مشرقی افریقہ سے لائے گئے غلام دوران حراست فاقہ کشی کی حالت میں
مشرقی افریقہ سے لائے گئے غلام دوران حراست فاقہ کشی کی حالت میں، 1873ء میں غلامی کے دور کی تصویری عکاسیتصویر: Getty Images/Hulton Archive
انیس ویں صدی کا وسط، کاروبار کے طور پر غلاموں کی نیلامی کا ایک اشتہار
1850ء: جیکسن برگ میں نوے ’قیمتی‘ افریقی غلاموں کی نیلامی کا اشتہارتصویر: Getty Images/Hulton Archive

’انسانیت کے خلاف جرم‘ کا یورپی اعتراف

یورپی یونین نے ابھی اسی سال جولائی میں اعتراف کیا تھا کہ یورپی ممالک میں غلاموں کی تجارت کا عمل کئی ملین انسانوں کے لیے ''بے تحاشا مصائب اور تکالیف‘‘ کا باعث بنا تھا۔ ساتھ ہی یونین کی طرف سے یہ اشارہ بھی دیا گیا تھا کہ اس تاریخی ناانصافی کی تلافی کی بھی ضرورت ہے کیونکہ یہ عمل ''انسانیت کے خلاف جرم‘‘ تھا۔

برازیل میں دور غلامی کے زخم آخر بھرتے کیوں نہیں

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے آخر میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ نوآبادیاتی نظام اور انسانوں کو غلام بنائے جانے کے عمل کی آج کے دور میں بھی موجود میراث کے تدارک کے لیے ''کئی طرح کے اقدامات‘‘ کیے جا سکتے ہیں۔

یہ اقدامات انصاف کی فراہمی اور مالی ازالے کے لیے رقوم مہیا کرنے سے لے کر مصالحت کے عمل میں بھرپور عملی شرکت تک کئی طرح کے ہو سکتے ہیں۔

م م / ش ر (روئٹرز)