1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

صدر پوٹن نے جوہری تجربات کرنے پر عائد پابندی ہٹا دی

2 نومبر 2023

ماسکو نے گزشتہ ماہ باضابطہ طور پر جوہری تجربات نہ کرنے کے معاہدے ’سی ٹی بی ٹی‘ کی توثیق نہ کرنے کے عمل کا آغاز کیا تھا۔ روس کا مؤقف ہے کہ اسے بھی وہی آپشنز دسیتاب ہونے چاہئیں، جو دوسری بڑی جوہری طاقت امریکہ کو میسر ہیں۔

https://p.dw.com/p/4YJmp
Russland | Der russische Präsident Wladimir Putin
تصویر: Gavriil Grigorov/Kremlin Pool/Planet Pix/picture alliance

روسی  صدرولادیمیر پوٹن نے جوہری ہتھیاروں کے تجربات نہ کرنے کے معاہدے سے باضابطہ طور پر دستبرداری اختیار کر لی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کئی دہائیوں بعد روس میں جوہری تجربات کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

 یہ اقدام اس پیشرفت کے بعد متوقع تھا، جس کے تحت روس نے گزشتہ ماہ باضابطہ طور پر جوہری تجربات پر پابندی کے معاہدے 'سی ٹی بی ٹی‘ سے دستبردارہ کے عمل کا آغاز کیا تھا۔

Russland, Plesetsk  | Interkontinentalrakete des Typs Yars während einer Atomübung (2022)
صدر پوٹن کی طرف سے سی ڈی بی ٹی معاہدے سے دستبرداری کے بعد ماسکو کے لیے جوہری ہتھیاروں کے تجربات کی رہ ہموار ہو گئی ہےتصویر: Russian Defense Ministry Press Service/AP/picture alliance

 صدر پوٹن نے اس سے قبل  یہ کہہ کر سی ٹی بی ٹی  سے دستبرداری کا جواز پیش کیا تھا کہ روس کے پاس بھی وہی آپشنز ہونے چاہئیں، جو دوسری بڑی ایٹمی طاقت یعنی امریکہ کو دستیاب ہیں۔

روس کے برعکس امریکہ نے کبھی بھی اس معاہدے کی توثیق نہیں کی لیکن پھر بھی امریکہ نے 1990ء کی دہائی سے جوہری تجربات پر پابندی کی تعمیل کی ہے۔

 یہ معاہدہ خود 1996 میں جوہری ہتھیاروں کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اپنایا گیا تھا۔ ویانا میں 'سی ٹی بی ٹی‘  تنظیم پیمائش کرنے والے اسٹیشنوں کا ایک عالمی نیٹ ورک چلاتی ہے، جو دباؤ سے پیدا ہونے والی لہروں کے ساتھ ساتھ کیمیائی اور جوہری نشانات کے ذریعے جوہری تجربات کا پتہ لگا سکتی ہے۔

 روس اپنے 32 اسٹیشنوں سے ڈیٹا کی فراہمی جاری رکھنا چاہتا ہے۔ ماسکو نے کہا کہ روس صرف اسی صورت جوہری ہتھیاروں کا دوبارہ تجربہ کرے گا، اگر امریکہ نے بھی ایسا کیا۔

ش ر ⁄ ا ا (ڈی پی اے)

جوہری معاہدے سے امريکا کی دستبرداری: ايرانی کاروباری ادارے پريشان