1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدر اوباما کا دورہ جاپان، تجارت اور سکیورٹی سرفہرست

افسر اعوان22 اپریل 2014

امریکی صدر باراک اوباما بدھ 23 اپریل کو اپنے تین روزہ سرکاری دورے پر جاپان پہنچ رہے ہیں۔ اوباما کے اس دورے کے دوران علاقائی سلامتی اور تجارت کو خصوصی اہمیت رہے گی۔

https://p.dw.com/p/1Bm43
تصویر: picture-alliance/dpa

جاپانی دارالحکومت ٹوکیو میں 17 اپریل کو ہونے والی ایک کانفرنس سے خطاب میں جاپانی وزیر اعظم شانزو آبے کا کہنا تھا، ’’جاپان اور امریکا دونوں قانون کو حد درجہ اہمیت دیتے ہیں، آزادی اور جمہوریت کے علمبردار ہیں اور جدید ترین ٹیکنالوجی اور صنعت کے حامل ہیں۔‘‘ شانزو آبے کا مزید کہنا تھا، ’’ہم اپنے باہمی اختلافات کے خاتمے کا عزم رکھتے ہیں اور ہم اکیسویں صدی میں مشترکہ طور پر ایشیا اور پیسیفک میں ایک طاقتور اقتصادی تعاون کے متمنی ہیں۔‘‘

ترقی کی بنیاد

باہمی تعاون کے فروغ کے حوالے سے جاپانی وزیر اعظم شانزو آبے کا کہنا تھا، ’’ہماری خواہش ہے کہ ہم ترقی کی مضبوط بنیاد رکھیں۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ میرا پختہ یقین ہے کہ ہمیں یہ بنیاد ضرور استوار کرنی چاہیے۔‘‘

صدر باراک اوباما کے دورے کے دوران ایک تجارتی معاہدہ جس پر دستخط ہونا ہیں وہ ’ایجوکیشن ایکسچینج‘ پروگرام ہے
صدر باراک اوباما کے دورے کے دوران ایک تجارتی معاہدہ جس پر دستخط ہونا ہیں وہ ’ایجوکیشن ایکسچینج‘ پروگرام ہےتصویر: DW/V. Over

تاہم اگر 12 رکنی ’ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ‘ (TPP) تجارتی معاہدے کے حوالے سے دیکھا جائے تو اب تک کچھ معاملات پر اختلافات موجود ہیں، مثلاﹰ زراعت اور کار سازی کی صنعت دو ایسے شعبے ہیں جن سے متعلق امور پر اتفاق نہیں ہو پا رہا۔ واشنگٹن کی طرف سے ٹوکیو پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ گوشت کی درآمد پر اپنے محصولات میں کمی لائے اس کے علاوہ ڈیری مصنوعات کی صنعت کے تحفظ کے لیے قوانین میں بھی نرمی لائی جائے۔ دوسری طرف جاپان بدلے میں اس بات کا متمنی ہے کہ امریکا برآمد شدہ کاروں اور ٹرکوں پر لاگو محصولات ختم کرے، تاہم امریکا کی طاقتور کار ساز صنعت اس بات کی مخالف ہے۔

خیال یہی کیا جا رہا ہے کہ صدر اوباما کے دورے کے دوران نہ صرف اس طرح کے اختلافات دور ہو سکتے ہیں بلکہ دونوں ممالک اس حوالے سے کسی معاہدے تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔

صدر باراک اوباما کے دورے کے دوران ایک معاہدہ جس پر دستخط ہونا ہیں وہ ’ایجوکیشن ایکسچینج‘ پروگرام ہے جس کے تحت امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے جاپانی طالبعلموں کی تعداد دو گنا ہو جائے گی۔ یہ تعداد اس وقت 20 ہزار ہے۔ جبکہ جاپان میں تعلیم کے لیے جانے والے امریکی طلبہ کی تعداد بھی بڑھا کر 12 ہزار کر دی جائے گی۔

دھندلاتا اثر و رسوخ

تجارت کے علاوہ جو دوسرا اہم ترین موضوع زیر بحث آئے گا وہ علاقائی سکیورٹی کا معاملہ ہے۔ ٹوکیو کی میجی یونیورسٹی کے پروفیسر برائے بین الاقوامی تعلقات گو اِٹو Go Ito نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’یہ واقعی بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ گزشتہ دو ایک سالوں کے دوران یہ تاثر ابھرا ہے کہ امریکا اب دنیا کا پولیس مین نہیں رہا اور اسے دنیا کے بعض حصوں میں للکارا جا سکتا ہے۔‘‘

جاپان اور امریکا دونوں قانون کو حد درجہ اہمیت دیتے ہیں، آزادی اور جمہوریت کے علمبردار ہیں اور جدید ترین ٹیکنالوجی اور صنعت کے حامل ہیں، شانزو آبے
جاپان اور امریکا دونوں قانون کو حد درجہ اہمیت دیتے ہیں، آزادی اور جمہوریت کے علمبردار ہیں اور جدید ترین ٹیکنالوجی اور صنعت کے حامل ہیں، شانزو آبےتصویر: Reuters

وہ مزید کہتے ہیں، ’’ایشیا پیسیفک کے علاقے میں بالکل یہی چیز چین کر رہا ہے۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ صدر اوباما چین اور شمالی کوریا کے حوالے سے اپنے پوزیشن کی وضاحت کریں۔ جاپان اپنے علاقائی مفادات اور وسیع سکیورٹی کے تناظر میں اس حوالے سے تعاون کے بارے میں ایک واضح بیان کا خواہشمند ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو جاپان کے ساتھ امریکی تعلق کو مضبوط بنائے گی۔‘‘

تجزیہ کاروں کے مطابق اقتصادی اور سکیورٹی پالیسیاں وہ دو اہم معاملات ہیں جو واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کا فوکس ہیں اور جن پر امریکی صدر باراک اوباما نے رواں برس جنوری میں اپنے اسٹیٹ آف دا یونین خطاب میں خاص طور پر زور دیا تھا۔