1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدارتی آرڈیننس 2013ء ، شدت پسندوں کو گولی مارنے کے اختیارات دے دیے گئے

شکور رحیم ، اسلام آباد11 اکتوبر 2013

پاکستانی صدر ممنون حسین نے اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے جمعرات کی شب انسداد دہشت گردی کا ترمیمی آرڈیننس 2013ء جاری کر دیا۔

https://p.dw.com/p/19y8Q
تصویر: NFFTY

اس صدارتی آرڈیننس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو امن و امان کے قیام کے لیے شدت پسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ اس آرڈیننس میں 1997ء کے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے کی مختلف شقوں میں ترامیم کی گئی ہے۔ خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق ترمیم آرڈیننس کے ذریعے الیکٹرانک اور فرانزک شواہد کو بھی عدالت کے لیے قابل قبول قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی شخص کے خلاف قابل بھروسہ اطلاع موصول ہونے کے بعد اسے تین ماہ تک کسی عدالت میں پیش کیے بغیر زیر حراست رکھا جا سکے گا۔

اس سے قبل کسی بھی شخص کی گرفتاری کے بعد اس کو چوبیس گھنٹوں میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ضروری تھا۔ اس کے علاوہ کی گئی ایک ترمیم کے تحت مقدمہ شروع ہونے سے پہلے پراسیکیوٹر مقدمے کی فائل کی جانچ پڑتال کرے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مقدمے کو روزانہ کی بنیاد پر چلانے کی تمام ضروری کارروائی مکمل ہو سکے۔

Mamnoon Hussain neuer Präsident Pakistan 24.07.2013 ARCHIV
صدارتی آرڈیننس کے اجراء سے دہشت گردی اور شدت پسندی پر قابو پانے میں مدد ملے گیتصویر: picture-alliance/AP Photo

اسلام آباد میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور شدت پسندی کے موضوع پر متعدد کتابوں کے مصنف عامر رانا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادروں کے بعض اہلکاروں کے رویوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس نوعیت کی قانون سازی کے لیے حکومت کو حفاظتی تدابیر بھی مد نظر رکھنی چاہیے تھیں۔ انہوں نے کہا ’’ جو ادارے اس آرڈیننس کو استعمال کریں گے کیا وہ ان قوانین کو صحیح استعمال کرنے کے اہل بھی ہیں۔ یا وہ اس کا غلط استعمال زیادہ کریں گے۔ جب بھی قانون سازی ہوتی ہے تو حکومت اس کو یقینی بناتی ہے کہ جو ادارے یا افراد ان قوانین کو استعمال کریں گے ان پر قدغنیں لگائی جاتی ہیں۔ لیکن ان قوانین کے حوالے سے ایسا کھچہ نظر نہیں آتا ‘‘۔

ماضی میں کراچی شہر میں رینجرز اور پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں ایسے واقعات سرزد ہوچکے ہین جں میں عام شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بننا پڑا تھا۔

تاہم سپریم کورٹ کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے پے درپے واقعات نے ایسے غیر معمولی حالات پیدا کر دے ہیں جو غیر معمولی قانون سازی کے متقاضی ہیں۔ انہوں نے انسداد دہشت گردی کے ترمیمی آرڈیننس کو سراہتے ہوئے کہا ’’ ایک عارضی اقدام کے طور پر یہ قانون یقینا مدد کرے گا۔ میرے خیال سے دہشت گردی پر قابو پانے کے حوالے سے کچہ ایسے معاملات ہیں جو پورے ہوئے ہیں۔ ہم ٹاک شوز اور مختلف فورموں پر باتیں کرتے رہے کہ ایسے قوانین آنے چاہیے کہ جو ایک طرح سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پاور دیں کہ وہ ان سارے معاملات کو حل کر سکیں‘‘۔

ترمیمی آرڈیننس میں انسداد دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کرنے والے ججوں کے علاوہ گواہان اور وکلاء کو تحفظ دینے کے لیے خصوصی اقدامات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

جمعے کے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید کا کہنا تھا کہ صدارتی آرڈیننس کے اجراء سے دہشت گردی اور شدت پسندی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے قوانیں کو سخت کر رہی ہے۔