1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی صحافتایشیا

صحافیوں کو مارنا ضروری ہے کیا؟

4 جون 2021

اسلام آباد میں صحافت سے جڑے افراد پر حملوں کے پے در پے واقعات اور ان کے خلاف احتجاج میں کی جانے والی تقاریر نے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کیا ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/3uQNH
DW Urdu Blogger Muhmmad Akram
تصویر: Privat

ویسے تو وطن عزیز میں ہر دم ہر جگہ کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی کے، خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں جیسے پولیس، رینجرز اور دیگر سکیورٹی اداروں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتا رہتا ہے۔ کچھ نہ کچھ رپورٹ بھی ہو جاتا ہے، تاہم صحافت سے جڑے افراد کو مخصوص حالات میں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے تو صدائے احتجاج زیادہ بلند ہوتی ہے۔

اخبار یا نیوز چینل پر خبر آ جاتی ہے اور کچھ تو اتنےخوش قسمت اور بااثر ہوتے ہیں کہ ان کے خلاف  واردات پر ملک کی بڑی بڑی سیاسی جماعتیں  اور انسانی حقوق کے ادارے بھی  یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسا معاملہ جب بین الاقوامی اہمیت اختیار کر لے تو وہ سنگین تر معلوم ہو نے لگتا ہے۔ پاکستان میں بہرحال سارے صحافی اتنے بااثر یا اتنے خوش قسمت واقع نہیں ہوتے، خاص طور پر وہ جو دور دراز کے علاقوں میں ایسی وارداتوں کا شکار ہو کر اپنی جان بھی گنوا دینے کے باوجود میڈیا، میڈیا تنظیموں اور بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کی اعلی قیادت کی معمولی سی توجہ بھی حاصل نہیں کر پاتے۔

اس معاملے کو سمجھنے کے لئے کہ صحافیوں کو مار کیوں پڑتی ہے یا ان کے خلاف وارداتیں کیوں ہوتی ہیں آئیے پہلے جاننے  کی کوشش کرتے ہیں  کہ صحافی کون ہوتا ہے، صحافت کا مقصد کیا ہے؟

صحافی کون ہوتا ہے؟

کیمبرج ڈکشنری میں صحافی کی تعریف کچھ ایسےکی گئی ہے،''جو شخص کسی اخبار یا میگزین کے لئے خبریں یا مضمون لکھتا ہے یا انہیں ریڈیو یا ٹی وی پر نشر کرنے کا کام کرتا ہے، صحافی کہلاتا ہے۔‘‘

امریکن پریس انسٹی ٹیوٹ کے مطابق یہ سوال ہی غلط ہے کہ پوچھا جائے کہ صحافی کون ہوتا ہے؟ اس لئے کہ صحافت تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔ صحافتی کام سے وقتی طور پر منسلک ہو جانا، جیسے موبائل فون سے کسی جگہ لگی آگ کی تصویر بنا لینا، کوئی بلاگ سائیٹ بنا کر اس پر خبریں یا ان پر تجزیے دینا صحافت نہیں۔ تاہم اسی امریکی ادارے کے مطابق  بعض صورتوں میں ایسا کام صحافتی کام کے زمرے میں بھی آ سکتا ہے۔ امریکن پریس انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ صحافتی کام اور اس کے حتمی نتیجے تک پہنچنے میں واضح فرق ہوتا ہے۔ صحافی کے لئے عوامی بہتری (عوام کی طرف جانبداری) کسی بھی دوسری چیز پر فوقیت رکھتی ہے۔ صحافی معلومات جمع کرنے اور ان کی جانچ کے لئے مختلف طریقے استعمال کرتا ہے، جس کی بنیاد ہمہ وقت ان معلومات کی تصدیق کرنا ہوتا ہے۔

صحافت کا اصول اور مقصد کیا ہے؟

امریکن پریس انسٹی ٹیوٹ کے مطابق صحافت محض ٹیکنالوجی کے استعمال یا صحافی اور اس کی طرف سے استعمال کی گئی تکنیک کا نام نہیں ہے۔ بلکہ اس کے اصول اور مقصد کی بنیاد یہ ہے کہ 'خبر لوگوں کی زندگی میں کیا کام کرتی ہے۔‘ خبر رابطے کا وہ ذریعہ ہے، جس کے ذریعے ہم اپنے ارد گرد وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں، معاملات اور باہر کی دنیا میں موجود کرداروں سے متعلق آگاہ رہتے ہیں۔ امریکی ادارے کے مطابق خبر کی بنیادی اہمیت یہ ہے کہ یہ معلومات رکھنے والےکو بااثر بناتی ہے۔ اس لئے صحافت کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ وہ شہریوں کو اپنی زندگی، معاشرے اور حکومتوں  کے بارے میں بہتر فیصلے تک پہنچنے میں مدد کے لئے معلومات فراہم کرے۔

یہ سب محض کتابی باتیں نہیں ہیں۔ لیکن ہو سکتا ہے انہیں پڑھ کر آپ بوریت کا شکار ہو رہے ہوں اور سوچ رہے ہوں کہ یہ کہاں ہوتا ہے کہ صحافی معلومات کی تصدیق کے پیچھے پڑا رہے اور میڈیا میں جاری مقابلے کی دوڑ میں اپنے اصول اور مقاصد کو پورا کرنے کے چکر میں نوکری سے ہی ہاتھ دھو بیھٹے۔

 یقیناﹰ ایسا بھی ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے اور کہیں تو شاید کھیل اس سے بھی آگے بڑھ چکا ہے۔ جیسے ایک ٹویٹ کے جواب میں ایک ایسے شخص پر مبینہ قاتلانہ حملہ، جس نے مختلف اخبارات اور نیوز چینلز میں برسوں نوکری کی اور پھر مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں پیمرا کے چیئرمین بھی رہے۔ ان کے معاملے کو شخصی آزادی یا آزادی اظہار کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھنا زیادہ مناسب ہو گا۔ یقیناﹰ کسی کے بھی خلاف طاقت کا استعمال ہر صورت میں قابل مذمت ہے۔ مگر کیا اس واقعہ کو صحافت کی آزادی پر قدغن کے طور پر پیش کرنا درست ہو گا جبکہ متاثرہ شخص بھی صحافت سے الگ ہو کر سیاست سے منسلک ہو چکا ہو۔

دوسرا اور تازہ ترین واقعہ بھی چشم کشا ہے کہ ایک اکیلے فرد کو تین افراد سی سی ٹی وی کیمروں کی موجودگی میں کسی مبینہ ناپسندیدہ بلاگ پر بری طرح سے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت واقعہ ہے مگر کیا یہ پوچھنے کی جسارت کی جا سکتی ہے کہ ایک بلاگ، جو کسی بھی فرد کی ذاتی رائے سے ذیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا، اس کو آزادی صحافت کا معاملہ بنایا جا سکتا ہے؟

 اس معاملے کا دوسرا پہلو اور بھی زیادہ سنگین ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق مبینہ طور پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے اور ماضی میں ہوئے ایسے ہی واقعات اس کی سند بھی بن رہے ہیں، تو کیا ماضی کی طرح اب پھر حملہ آور محض اس لئے کبھی کٹہرے میں نہیں لائے جا سکیں گے کہ ان کا تعلق مبینہ طور پر طاقتور اداروں سے ہے؟

  اگرحملہ آوروں کا تعلق طاقتور اداروں سے نہیں بھی ہے تو پھر بھی یہ ان ہی طاقتور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ حملے کے مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لائیں اور اپنے دامن میں لگے داغ کو خود صاف کریں۔ پہلے تو ایسا دیکھنے میں نہیں آ سکا، شاید اب ایسا ہو جائے!

پرانے وقتوں میں سیاستدانوں کی زبانی سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ سیاست اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ آج کل کا کوئی سیاستدان اس جملے کو اپنی تقریر کا حصہ نہیں بناتا۔ جس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہو کہ اب ایسے جملے بھی عام سمجھ میں آنے والی (سلیس) اردو سے نکل کر اکثریت کو ناسمجھ میں آنے والی مشکل الفاظ سے مرصع ادق اردو میں شمار ہو چکے ہوں، مگر وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ چولی (سیاست) اب کون کون سا دامن (صحافت) اپنے ساتھ لپیٹے کہ میڈیا کی روز بروز کی بدلتی شکل کہیں ٹھہرے تو کچھ سمجھ میں آئے کہ فیشن میں نیا کیا ہے اور کب تک فین میں رہے گا۔

امریکن پریس انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے دی گئی صحافی کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ موبائل فون سے کسی جگہ لگی آگ کی تصویر بنا لینا آپ کو صحافی نہیں بنا دیتا۔

اگر موبائل فون سے کھینچی گئی آگ کی تصویر بنانے والا صحافی نہیں ہو سکتا تو سوچنا ہو گا کہ وہ شخص کیسے صحافی ہو سکتا ہے یا رہ سکتا ہے، جو مظاہرین کو اشتعال دلانے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی موٹر سائیکل سے پٹرول بھی نکال کر دے کہ وہ کسی سرکاری دفتر کو آگ لگا دیں۔ لاہور کے ریگل چوک پر 31 سال پہلے ہونے والے اس وقوعہ کی انکوائری ہوئی نہ کسی کو سزا دی گئی۔ تاہم یہ ضرور ہوا کہ اس جرم کی سزا پورے معاشرے پر برابر تقسیم ہونے کے باوجود ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ نہ جانے ساغر صدیقی کا یہ مصرعہ کہ، جانے کس جرم کی سزا پائی ہے یاد نہیں، کب صرف اردو ادب تک محدود ہو اور حقیقت حال کا عکاس نہ رہے۔