شیکسپیئر کے چرچے دنیا بھر میں
دنیا میں کسی بھی ادیب کی تحریروں کو اسٹیج ڈرامے یا پردہء اسکرین پر فلم کی صورت میں اتنا زیادہ پیش نہیں کیا گیا، جتنا کہ انگریز ادیب ولیم شیکسپیئر کی تحریروں کو۔ یہ بات ثابت شُدہ نہیں کہ 23 اپریل اُن کا یومِ پیدائش ہے۔
ہر زمانے میں مقبول
شیکسپیئر کے شاہکار اپنے موضوعات کے اعتبار سے آفاقی حیثیت رکھتے ہیں اور اُنہیں آسانی سے دنیا کی تقریباً تمام ثقافتوں میں مقامی رنگ میں ڈھال کر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس عظیم ڈرامہ نگار، نغمہ نگار اور اداکار کے موضوعات میں محبت اور جوش و جذبے سے لے کر، حسد اور سازشوں اور پھر انتقام اور قتل تک سب کچھ ملتا ہے۔
قربت یا گریز کے ذریعے جذبات میں ہیجان
تہران میں شیکسپیئر کے ڈرامے ’میکبتھ‘ کا ایک منظر۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے میکبتھ سازشوں کے ذریعے سکاٹ لینڈ کا بادشاہ بنتا ہے۔ اقتدار کے حصول کی اس کہانی کا انجام خونریز ہے۔ شیکسپیئر انسانوں کی آزمائشوں اور مصائب اور اُن کے باہمی معاملات کو ایسے کرداروں کے ذریعے پیش کرتا ہے، جن سے تھیٹر میں جانے والے شائقین یا تو قربت محسوس کرتے ہیں یا وہ اُن سے خاص طور پر لاتعلق اور فاصلے پر رہنا چاہتے ہیں۔
’میکبتھ‘ افریقی ملک بوتسوانہ میں
بنیادی خیال شیکسپیئر ہی کے کھیل سے ماخوذ لیکن نتائج بالکل مختلف۔ افریقی داستانوں کے کرداروں کو بھی شیکسپیئر کے کرداروں کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا جا سکتا ہے۔ 2009ء میں ’اوکاوانگو میکبتھ‘ بوتسوانہ میں اسٹیج کیا جانے والا پہلا اوپیرا تھا۔ ہدایتکار الیگزینڈر میکال اسمتھ نے اسے اپنے ملک کے حالات اور سیاسی صورتِ حال پر منطبق کر دیا تھا۔ مقامی شوقیہ فنکاروں کی مدد سے یہ اوپیرا ایک گیراج میں اسٹیج کیا گیا۔
شیکسپیئر جاپان میں
جاپانی ہدایتکار اکیرا کورُوساوا کی 1957ء کی شاہکار فلم ’تھرون آف بلڈ‘ میں شیکسپیئر کے کھیل ’میکبتھ‘ کو سولہویں صدی کے جاپانی سمورائی جنگجوؤں پر منطبق کر دیا گیا۔ اس فلم میں اس المیہ کہانی کو انتہائی خوبصورت مناظر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس فلم میں ’میکبتھ‘ سے مماثل کردار اداکار توشیرو میفونے (تصویر میں بائیں جانب) نے ادا کیا تھا۔
لازوال محبت کی داستان نئے دور میں
شیکسپیئر نے ’رومیو اور جولیٹ‘ کے نام سے جو داستانِ محبت تحریر کی، اُسے 1996ء میں آسٹریلوی ہدایتکار بَیز لُوہرمین نے ایک فلم کے روپ میں پیش کیا۔ لیونارڈو ڈے کاپریو اور اداکارہ کلیئر ڈینز نے کچھ اس انداز میں اپنے اپنے کردار ادا کیے کہ فلم بینوں کو رومیو اور جولیٹ کے کردار شاید ہی پہلے کبھی اتنے حقیقی محسوس ہوئے ہوں، جتنے کہ اس فلم میں ہوئے۔
رقص کرتے رومیو اور جولیٹ
شیکسپیئر کے ڈراموں کا بنیادی مقصد ہوتا تھا، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو محظوظ کرنا۔ راسٹا تھامس اور ایڈریین کانٹرنا نے سوچا کہ کیوں نہ اس داستان کو رقص و موسیقی کے انداز میں پیش کیا جائے۔ یہ راک بیلٹ پہلی مرتبہ ستمبر 2013ء میں جرمن شہر ہیمبرگ میں اسٹیج پر پیش کیا گیا۔
رومیو اور جولیٹ بغداد میں
’عراقی تھیٹر کمپنی‘ نے 2012ء میں شیکسپیئر کے اس کھیل کو ’رومیو اور جولیٹ بغداد میں‘ کے نام سے یوں پیش کیا کہ رومیو کو ایک شیعہ لڑکے کے روپ میں اور جولیٹ کو ایک سنّی لڑکی کے روپ میں دکھایا گیا۔ ورلڈ شیکسپیئر فیسٹیول کی دعوت پر یہ ڈرامہ انگلینڈ میں بھی اسٹیج پر پیش کیا گیا۔ اس کھیل میں دو پیار کرنے والوں کے خاندانوں کی کہانی کو ایک عرب ملک کے معاشرے بلکہ ایک عالمی مذہب پر منطبق کر کے دکھایا گیا تھا۔
’ہیملٹ‘ روسی زبان بولتے ہوئے
شیکسپیئر کا شاہکار ڈرامہ ’ہیملٹ‘ بھی بے حد شہرت رکھتا ہے۔ اس ڈرامے کی کہانی کے واقعات ڈنمارک میں پیش آتے ہیں، جہاں شہزادہ ہیملٹ اپنے باپ کا بدلہ لیتے لیتے اپنے تمام ساتھیوں کو موت کے منہ میں پہنچا دیتا ہے۔ تھوڑی سی تبدیلیوں کے ساتھ یہی کہانی روس میں بھی دکھائی جا سکتی ہے، جیسے کہ یہاں ماسکو میں 2006ء میں روسی فوج کے تھیٹر میں اداکار نکولائی لازاریف کو خود کلامی کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
’اے مِڈ سمر نائٹس ڈریم‘ جنوبی کوریا میں
براعظم ایشیا میں بھی شیکسپیئر کے ڈراموں کو شوق سے مقامی رنگ دے کر اسٹیج پر پیش کیا جاتا ہے۔ 2010ء کی اس تصویر میں جنوبی کوریائی تھیٹر گروپ ’یوہانگزا‘ شیکسپیئر کے کھیل ’اے مِڈ سمر نائٹس ڈریم‘ کو کوریائی لوک داستانوں کے ساتھ جوڑ کر مقامی موسیقی اور رقص کے ساتھ پیش کر رہا ہے۔
شام کا ایک بادشاہ
شیکسپیئر کے اثرات اردن کے صحرا میں واقع ایک مہاجر کیمپ ’زاتاری‘ میں۔ یہاں شام سے آیا ہوا تیرہ سالہ مہاجر بچہ مجد عماری بڑے فخر کے ساتھ ’کِنگ لیئر‘ کا کردار ادا کرتا نظر آ رہا ہے۔ شامی اداکار اور ہدایتکار نوار بلبل نے شیکسپیئر کے اس ڈرامے کے لیے دو مہینے سے زائد عرصے تک بچوں کے ساتھ سخت محنت کی، اس امید کے ساتھ کہ اس طرح بین الاقوامی برادری کی توجہ اس کیمپ کی حالتِ زار کی جانب دلائی جا سکے گی۔
شیکسپیئر طالبان کے افغانستان میں
افغان تھیٹر نے 1960ء کے عشرے میں ایک طرح سے اپنا سنہری دور دیکھا۔ اس کے بعد طالبان آ گئے، جنہوں نے ہر قسم کے تھیٹر پر پابندی لگا دی۔ جولائی 2012ء کی اس تصویر میں شیکسپیئر کا ڈرامہ ’دی ٹیمپَیسٹ‘ دارالحکومت کابل میں اسٹیج پر پیش کیا جا رہا ہے، اس بات کی ایک علامت کے طور پر کہ طوفانی دَور کو پیچھے چھوڑتے ہوئے فنی حوالے سے ایک نئے دور کا آغاز کیا جانا چاہیے۔
لیکن کیا یہ سب شیکسپیئر نے ہی لکھا؟
یہ بحث نئی نہیں کہ آیا یہ شیکسپیئر ہی تھا، جس نے یہ سب شاہکار ڈرامے تخلیق کیے۔ ’انانیمس‘ 2011ء کی فلم ہے، جس میں جرمن ہدایتکار رولانڈ ایمرش نے اُن محققین کی تائید و حمایت کی، جو یہ کہتے ہیں کہ دراصل طبقہء امراء سے تعلق رکھنے والے ایڈورڈ ڈے ویئر یعنی اَرل آف آکسفورڈ ان شاہکاروں کے اصل مصنف تھے۔ اس تصویر میں وانیسا ریڈ گریو کو الزبتھ اول اور رِز ایوانز کو ایڈورڈ ڈے ویئر کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔