1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
انسانی حقوقاسرائیل

الجزیرہ کی صحافی شیریں ابو عاقلہ پر گولی کس نے چلائی؟

5 جولائی 2022

امریکہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کی پوزیشن سے چلنے والی گولی ممکنہ طور پر صحافی شیریں ابو عاقلہ کی موت کی ذمہ دار ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ فائرنگ دانستہ طور پر کی گئی اس پر ’’یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں‘‘ پائی جاتی۔

https://p.dw.com/p/4Dfhm
Frankreich I Nach Tod von Journalistin im Westjordanland - Proteste
تصویر: Ilia Yefimovich/dpa/picture alliance Ilia Yefimovich/dpa

امریکی محکمہ خارجہ نے پیر کے روز کہا ہے کہ الجزیرہ کی صحافی شیریں ابو عاقلہ کو ہلاک کرنے والی گولی ممکنہ طور پر اسی مقام سے چلائی گئی تھی، جہاں اسرائیلی فوجی تعینات تھے، تاہم یہ گولی دانستہ طور پر نہیں چلائی گئی۔

تفتیش کے مقصد سے فلسطینی حکام نے مذکورہ گولی امریکی حکام کے حوالے کی تھی اور یہ بیان امریکی فورینزک اور بیلسٹکس ماہرین کی ایک ٹیم کی جانب سے گولی کا معائنہ کرنے کے بعد سامنے آیا۔ شیریں ابو عاقلہ کو 11 مئی کے روز فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی فوجی آپریشن کی کوریج کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

امریکی ٹیم نے کیا نتیجہ اخذ کیا؟

محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا کہ آزاد ماہرین کی ٹیم، جس کی نگرانی امریکی سکیورٹی حکام کر رہے تھے، اس ’’گولی کی اصلیت یا اس کے منبع کے بارے میں کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی‘‘، جو ممکنہ طور پر تجربہ کار صحافی کو ہلاک کرنے کا سبب بنی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’’بیلسٹک ماہرین کے مطابق گولی بری طرح سے خراب ہو گئی، جس کی وجہ سے کوئی واضح نتیجہ نہیں نکل سکا۔‘‘ فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ ساتھ امریکی سکیورٹی ماہرین اور اسرائیل ڈیفنس فورسز کو تفتیش کے لیے اس گولی تک مکمل رسائی فراہم کی گئی تھی۔

 دونوں تحقیقات کا تجزیہ کرنے اور خلاصہ تیار کرنے کے بعد امریکی سکیورٹی حکام نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ، ’’اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی پوزیشنوں سے چلنے والی گولی ممکنہ طور پر شیریں ابو عاقلہ کی موت کی ذمہ دار تھی۔‘‘

تاہم  امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے بیان میں وضاحت کی کہ ٹیم کو یہ ’’یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ملی‘‘کہ فائرنگ جان بوجھ کر کی گئی تھی، بلکہ اسرائیلی فوجی آپریشن کا یہ ’’افسوسناک نتیجہ‘‘ ثات ہوا۔

Berlin | Gedenk-Graffiti für die in Jenin getötete palästinensische Journalistin Shireen Abu Akleh
تصویر: Christoph Strack/DW

امریکی تفتیش پر شکوک و شبہات

امریکی نتائج جاری کرنے کے فوری بعد ابو عاقلہ کے اہل خانہ نے اس تفتیش کے نتائج پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ماہرین کی ٹیموں کے نتائج پر وہ ’’متشکک‘‘ ہیں۔

اہل خانہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گيا، ’’محکمہ خارجہ نے آج، چار جولائی کو جو اعلانات کیے ہیں، کہ شیریں ابو عاقلہ، جو ایک امریکی شہری تھیں، کو ہلاک کرنے والے گولی کے تجزیے سے یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ یہ کس کی بندوق سے چلائی گئی تھی، ہمیں اس پر قطعی یقین نہیں ہے۔‘‘

لواحقین نے مزید کہا کہ امریکی تحقیقات کی روشنی میں یہ کہنا کہ،’’فائرنگ جان بوجھ کر نہیں کی گئی تھی، شیریں کی یاد داشت کی توہین ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کی آزادانہ تحقیقات  اور امریکی نشریاتی ادارے سی این این  سمیت متعدد میڈیا اداروں کی تحقیقات سے یہ نتیجہ پہلے ہی اخذ کیا جا چکا ہے کہ شیریں ابو عاقلہ کو اسرائیلی فورسز نے گولی ماری تھی، جو بظاہر ایک ٹارگٹیڈ حملہ تھا۔

اہل خانہ کے بیان میں مزید کہا گیا،’’ہم شیریں کے لیے انصاف کی اپنی وکالت جاری رکھیں گے، اور اسرائیلی فوج اور حکومت کو جوابدہ ٹھہرائیں گے، چاہے 11 مئی کو جو کچھ بھی ہوا، اس کی حقیقت کو چھپانے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کی جائے۔‘‘

 اسرائیل نے کئی بار اس بات کی تردید کی ہے کہ صحافی ابو عاقلہ کو اس کے فوجیوں نے جان بوجھ کر نشانہ بنایا تھا۔ آئی ڈی ایف نے امریکی تحقیقات کے رد عمل میں کہا، ’’آئی ڈی ایف کی تحقیقات نے حتمی طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس کے کسی فوجی نے دانستہ طور پر محترمہ ابو عاقلہ پرگولی نہیں چلائی۔‘‘

Jerusalem | Beisetzung Shireen Abu Akleh, Journalistin Al-Jazeera
تصویر: Maya Levin/AP Photo/picture alliance

اقوام متحدہ کی تفتیش کے مطابق اسرائیلی فورسز نے گولی چلائی تھی

امریکی ماہرین کا تجزیہ اس وقت سامنے آیا ہے جب گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی ایک آزادانہ تحقیقاتی ٹیم بھی تقریباً اسی طرح کے نتیجے پر پہنچی تھی۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے 26 جون کو کہا تھا کہ اس کی تحقیق سے یہ پتہ چلا ہے کہ ابو عاقلہ کی ہلاکت کی ذمہ دار اسرائیلی فورسز ہیں۔  

"ہم نے جو بھی معلومات جمع کیں، جس میں اسرائیلی فوج اور فلسطینی اٹارنی جنرل کی معلومات بھی شامل ہیں، اس بات سے مطابقت رکھتی ہیں کہ ابو عاقلہ کو ہلاک کرنے اور ان کے ساتھی علی صمودی کو زخمی کرنے والی گولیاں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی طرف سے آئیں، اور یہ مسلح  فلسطینیوں کی اندھا دھند فائرنگ کا نتیجہ نہیں تھیں، جیسا کہ ابتدائی طور پر اسرائیلی حکام نے اپنے ایک بیان میں دعوی کیا تھا۔‘‘

اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’بظاہر اچھی طرح سے ہدف بنا کر ایک نہیں بلکہ کئی گولیاں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی سمت سے ان کی جانب چلائی گئیں۔‘‘

واشنگٹن کی تفتیش کے نتائج کا اعلان امریکی صدر جو بائیڈن کے مشرقی وسطی، بالخصوص اسرائیل کے دورے سے عین قبل کیا گیا ہے۔ امریکی صدر 13 جولائی کو اسرائیل پہنچیں گے اور پھر وہ مغربی کنارے کا بھی دورہ کریں گے۔

ص ز / ج ا (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)

فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان یروشلم میں جھڑپیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید