1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شکیل آفریدی کی پشاور جیل میں بھوک ہڑتال

29 نومبر 2012

ایک کالعدم عسکریت پسند تحریک سے رابطوں کے الزام میں سینٹرل جیل پشاور میں قید شکیل آفریدی نے پہلے سے فراہم کردہ سہولتیں واپس لیے جانے پر بھوک ہڑتا ل شروع کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/16scN
تصویر: dapd

انہوں نے جیل انتظامیہ سے اخبارات کی فراہمی، ورزش کرنے ،گھر سے سامان لانے اور پہلے سے دی گئی دیگرسہولتوں کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔

غداری ، ملک کے خلاف سازش اور قبائلی علاقوں میں نافذ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے تحت دیگر الزامات کا سامنا کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کا کہنا ہے کہ انہیں جیل میں کئی مسائل کا سامنا ہے، لہٰذا انہیں ضرورت کے سامان کی فراہمی کی اجازت دی جائے۔

تاہم سینٹر ل جیل پشاور کی انتظامیہ کی جانب سے انکار کے بعد انہوں نے کھانے پینے سے انکار کردیا ہے۔ جیل حکام سے رابطہ کرنے اور ان سے اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے مسلسل رابطہ کیا گیا، تاہم انتظامیہ اس پر بات کرنے سے گریزاں ہے۔ جیل انتظامیہ نے ان پر پابندیاں اس وقت سخت کیں جب انہوں نے ایک بین الااقوامی ادارے کو انٹرویو میں حکومت اور اداروں کے خلاف بیان دیا ۔

جب ڈی ڈبلیو نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکلاءکے پینل میں شامل سمیع اللہ آفریدی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا: ’’ہم نے اپنے مؤکل کے بارے میں جیل انتظامیہ سے رابطہ کیا ہے لیکن انتظامیہ نے ملاقات اور معلومات دینے سے انکار کردیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے اسی وجہ سے کھانے پینے سے انکار کیا ہو۔ اگر انتظامیہ نے ہمیں ان سے ملنے کی اجازت نہ دی تو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے پر غور کریں گے۔‘‘

دوسری جانب انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم کے رکن طارق خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق انتظامیہ اس بات کی پابند ہے کہ وہ کسی بھی الزام میں جیل میں قید کسی بھی پاکستانی کو نہ صرف بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنائے بلکہ انہیں اپنے وکیل اور رشتہ داروں سے ملنے کی بھی اجازت دے۔‘‘

سماجی کارکن نسیم الرحمان کا کہنا ہے: ’’حکومتی ادارے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے میں ناکامی کا سامنا کررہے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران عدالتوں سے سزائے موت پانے والوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہے لیکن حکومت اس پر عمل درآمد کرنے سے کتراتی ہے اور یہ قانون کی حکمرانی سے پہلوتہی کا ایک ثبوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بدامنی اور دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگر حکومت ڈاکٹر شکیل کے کیس کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا میرٹ پر فیصلہ کرے اور ملک کے خلاف کام کرنے والوں کو مثالی سزائیں دی جائیں تو امن و امان قائم کیا جاسکتا ہے لیکن یہ شاید موجودہ حکمرانوں کا ایجنڈا نہیں۔‘‘

یہ بات قابل ذکر ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ایبٹ آباد میں جعلی ویکسین مہم کی آڑ میں اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی معاونت کے الزام میں گرفتار کیا تھا لیکن وہ پشاور جیل میں اس الزام کے تحت قید نہیں بلکہ ان پر کالعدم عسکریت پسند تحریک لشکر اسلام سے تعلقات اور پاکستان کے خلاف سازش کے الزامات ہیں جن پر انہیں 33سال قید کی سزا ہو چکی ہے۔ ان کے مقدمے کی آئندہ سماعت 13دسمبر 2012 کو ہوگی۔صوبائی حکومت نے کئی مرتبہ وفاقی حکومت سے انہیں کسی اور صوبے میں منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تاہم اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔

رپورٹ: فرید اللہ خان، پشاور

ادارت: ندیم گِل