شو کے دوران فحش گفتگو پر بھارتی یوٹیوبر تنقید کی زد میں
20 فروری 2025یہ تنازعہ گزشتہ ہفتے اس وقت شروع ہوا جب سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر شہرت پانے والے رنویر الہ آبادیا نے شو کے مہمان سے ان کے والدین کے جنسی تعلقات کے بارے میں سوال کیا تھا۔ یہ ویڈیو کلپ سوشل میڈیا صارفین، عوامی شخصیات اور سیاسی رہنماؤں کی توجہ کا مرکز بنا۔
انڈیاز گوٹ ٹیلنٹ نامی اس شو کی میزبانی کرنے والے الہ آبادیا اور سمے رائنا کے خلاف متعدد پولیس شکایات درج کرائی گئیں۔ ان دونوں کو شو میں موجود کچھ دیگر شرکاء کے ساتھ پولیس نے پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا تھا۔ یہ معاملہ بھارتی پارلیمنٹ میں بھی اٹھایا گیا تھا۔شو میں الہ آبادیا نے ایک مدمقابل سے پوچھا: ''کیا آپ اپنے والدین کو ساری زندگی ازدواجی تعلقات قائم کرتے دیکھنا پسند کریں گے؟‘‘
الہ آبادیا، جو اپنے یوٹیوب چینل پر سینیئر بھارتی وزراء اور بالی وڈ کی مشہور شخصیات کا انٹرویوز کرتے ہیں، نے اپنے ان تبصروں پر عوام سے معذرت کی ہے۔ سمے رائنا نے اپنے یوٹیوب چینل سے شو کی تمام ویڈیوز ہٹا دی ہیں اور کہا ہے کہ وہ حکام کے ساتھ 'مکمل تعاون‘ کر رہے ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ نے منگل کو الہ آبادیا کی گرفتاری یہ کہہ کر روک دی کہ ان کا طرز عمل غیر ذمہ دارانہ رویے کا عکاس اور قابل مذمت ہے۔ اس کیس کی سماعت کرنے والے جج نے کہا، ''یہ یوٹیوبر کے دماغ میں بھری خرافات تھیں جو انہوں نے اس شو کے دوران اگل دیں۔‘‘
تاہم فی الحال عدالت نے الہ آبادیا کو اپنا پاسپورٹ پولیس اسٹیشن میں جمع کرانے کا حکم دیا اور انہیں ملک سے باہر سفر کرنے سے روک دیا ہے۔ اس کیس نے ایک پارلیمانی پینل کو ملک کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کو خط لکھنے پر مجبور کیا تاکہ اس طرح کے مواد کو روکنے کے لیے موجودہ قوانین میں ترمیم کے لیے لازمی اور بروقت اقدامات کیے جائیں۔
ایک قانون ساز نے پارلیمنٹ سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک قانون متعارف کرانے کی درخواست کی اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت اس تنازعے کو آزادی اظہار رائے کو محدود کرنے آن لائن مواد پر کڑی نظر رکھنے کے لیے استعمال کرے گی۔
یوٹیوب، انسٹاگرام اور ایکس جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے مواد تخلیق کرنے والے افراد کو یہ تشویش لاحق ہے کہ ایسا کوئی بھی قانون لاگو ہونے سے آزدی اظہار رائے کو نقصان پہنچے گا۔ پچھلے سال ایسا ایک مسودہ بھارتی پارلیمان میں پیش کیا گیا تھا جس میں سوشل میڈیا کی ریگولیشن کے حوالے سے بات کی گئی تھی تاہم اسے ابھی حتمی شکل نہیں دی گئی۔
صحافیوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے قوانین سینسر شپ کا باعث بن سکتے ہیں، اپنے خیالات کا برملا اظہار کرنے کی آزادی کو روک سکتے ہیں اور ڈیجیٹل میڈیا مواد کو ریگولیٹ کرنے کے لیے حکومت کو مزید با اختیار کر سکتے ہیں۔
ڈیجیٹل پالیسی کے تجزیہ کار اور 'میڈیا نامہ‘ نامی ویب سائٹ کے بانی، نکھل پاہوا نے کہا، ''میرے خیال میں یہ ایک پروگرام سوشل میڈیا پر سخت قوانین لاگو کرنے کا محرک بن سکتا ہے۔‘‘
تاہم الہ آبادیا کے معاملے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ اس تنازعے کو ضرورت سے زیادہ ہوا دی گئی ہے جس سے ملک کی کامیڈی انڈسٹری کا واضح نقصان ہوگا۔
نئی دہلی میں مقیم ایک ثقافتی نقاد انوراگ ورما نے کہا، ''سامعین کی اخلاقیات اور موجودہ سیاسی ماحول ایک بہت مضبوط فیصلہ کن عنصر ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ شو کے دوران سنائے گئے لطیفے قابل قبول ہیں یا نہیں۔ اور ایک بار آپ کے مواد کے بارے میں کوئی تاثر پیدا ہو جائے تو نتائج کو قابو کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔‘‘
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ بھارت کی کامیڈی انڈسٹری پر تنقید کی جارہی ہو۔ بھارتی کامیڈینز کو ماضی میں بھی شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کئی بار ان کامیڈینز کو پولیس کی جانب سے کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا اور کئی کامیڈی شوز بھی منسوخ کیے گئے۔
بھارت میں حالیہ برسوں میں اسٹینڈ اپ کامیڈی بے حد مقبول ہوئی ہے، لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں پروان چڑھتی قوم پرستی، مزاح نگاروں کو سیاست دانوں کا مذاق اڑانے یا مذہب کا حوالہ دینے پر بھی مشکل میں ڈال سکتا ہے۔
کامیڈین ویر داس کو اپنے 2021 میں'آئی کم فرام ٹو انڈیاز‘ نامی شو اور کامیڈین ویر داس کے حوالے سے بھی پولیس کو شکایات موصول ہوئی تھیں۔ اس شو میں کورونا وبا میں بھارتی اقدامات، خواتین کے حوالے سے بھارتیوں کے رویوں اور کامیڈینز پر حکومتی کریک ڈاؤن کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔
اپنے ایک شو کے دوران داس نے بھارت کو ایک ایسا ملک قرار دیا جہاں لوگ "دن میں خواتین کی عبادت کرتے ہیں لیکن رات کو ان کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔"
اسی سال کامیڈین منور فاروقی اور نلین یادیو کو پولیس نے ہندو دیوتاؤں کے بارے میں مبینہ طور پر قابل اعتراض تبصرے کرنے پر گرفتار کیا تھا۔ فاروقی جن کے دنیا بھر میں مداح موجود ہیں ایک ماہ جیل میں رہے۔
ر ب/ا ب ا (اے پی)