’شمالی کوریا کی اشتعال انگیزی ناقابل قبول‘
2 نومبر 2015دونوں وزراء نے یہ بیان سیول میں پیر کو سالانہ سکیورٹی اجلاس کے موقع پر دیا۔ اس سالانہ اجلاس میں امریکا اور جنوبی کوریا کے مابین جاری دفاعی تعاون کا جائزہ لیا گیا اور دونوں اتحادی ممالک نے اس امر کا اعادہ کیا کہ شمالی کوریا کی اشتعال انگیزی سے پیدا ہونے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے واشنگٹن اور سیول مل کر شمالی کوریا کا مقابلہ کریں گے۔
کارٹر نے صحافیوں سے بات چیت میں بتایا کہ دونوں اہلکاروں نے مذاکرات میں شمالی کوریا کی طرف سے جوہری ہتھیاروں، بیلیسٹک میزائل، سائبر اور روایتی فوجی خطرات کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔ امریکی اور جنوبی کوریائی وزرائے دفاع نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کی جارحیت اور اشتعال انگیزی جزیرہ نما کوریا ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ اسی سبب دونوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ،’ شمالی کوریائی اشتعال انگیزی برداشت نہیں کی جائے گی‘۔
امریکی اور جنوبی کوریائی حکام نے خاص طور سے شمالی کوریا کے اُس اقدام پر گہری تشویش ظاہر کی ہے جسے امریکی قرارداد کی خلاف ورزی سمجھا جا رہا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ شمالی کوریا کی طرف سے لانگ رینج یا دور تک مار کرنے کی صلاحیت کے حامل راکٹ کی تیاری کو نہایت خطرناک تصور کیا جا رہا ہے۔
ایک متوقع اقدام کے تحت، دفاعی سربراہان نے ایک اہم معاہدے پر بھی دستخط کر دیے، جس میں اُن حالات کی وضاحت کی گئی ہے، جن میں جنگ کے وقت جنوبی کوریا کے فوج کے کنٹرول کی امریکا سے سیول منتقلی ممکن ہو گی۔
طے شدہ پلان کے مطابق جنوبی کوریا کو آئندہ برس کے اواخر تک وار ٹائم کنٹرول OPCON لینا تھا تاہم اب کنٹرول کی منتقلی کا دارومدار ان شرائط کے پورا کرنے پر ہو گا نا کہ کسی خاص وقت پر۔
شمالی کوریا کی طرف سے دھمکی آمیز بیانات، راکٹ تجربے اور اُس کے غیر متوقع رویے میں گزشتہ چند برسوں میں تیزی آئی ہے۔ اس کے سبب امریکا اور جنوبی کوریا نے گزشتہ برس جنوبی کوریا کی فوج کا کنٹرول امریکا سے سیول منتقل کرنے کے اصولی فیصلے پر اتفاق کر لیا تھا۔
امریکی ویزر دفاع نے کہا ہے کہ اس منتقلی کے شرائط میں سب سے اہم شرط یہ شامل ہوگی کہ سیول حکومت اپنی انٹیلی جنس کی صلاحیتوں اور کاؤنٹر آرٹلری کی طاقت کو مزید بہتر بنائے گا۔
ہان من کو سے جب یہ پوچھا گیا کہ آخر جنوبی کوریا اپنی اقتصادی اور سیاسی ترقی کے باوجود اب تک اپنی ملٹری کا کنٹرول خود سنبھالنے کے لیے کیوں تیار نہیں تھا تو انہوں نے کہا، ’’اگر ہم دنیا کی نیشنل سکیورٹی کے رجحانات کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ بہت سے ممالک خود اپنے دفاع کے لیے علاقائی اور مقامی طاقتوں کا تعاون حاصل کر رہے ہیں۔‘‘
جنوبی کوریا حالیہ سالوں میں شمالی کوریا پر اپنے فوجی اداروں، بینکوں، حکومتی ایجنسیوں، نشریاتی اداروں اورمیڈیا ویب سائٹس پر سائبر حملوں کے الزامات بھی عائد کرتا رہا ہے۔