1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

شمالی کوریا کا جاسوس سیٹلائٹ لانچ کرنے کا تیسرا منصوبہ

21 نومبر 2023

شمالی کوریا نے جاپان کو بتایا ہے کہ وہ 22 نومبر اور یکم دسمبر کے درمیان ایک سیٹلائٹ لانچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جنوبی کوریا کی بندرگاہ بوسان پر امریکی طیارہ بردار بحری جہاز پہنچنے کے بعد یہ اعلان سامنے آیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4ZF90
شمالی کوریا کا سیٹلائٹ پروگرام
گزشتہ ستمبر میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے غیر معمولی دورہ روس کے بعد سیٹلائٹ روانہ کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا گیا ہےتصویر: KCNA/AP/picture alliance

جاپان کی حکومت نے منگل کے روز بتایا کہ شمالی کوریا نے اسے مطلع کیا ہے کہ وہ بحیرہ زرد اور مشرقی چین کے سمندر کی سمت میں ایک فوجی سیٹلائٹ لے جانے والا راکٹ لانچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

رائفل کے بدلے بندوق: پوٹن اور کم جونگ کے مابین تحائف کا تبادلہ

رواں برس کے آغاز پر دو ناکام کوششوں کے بعد جاسوسی سیٹلائٹ کو مدار میں بھیجنے کی اس کی یہ تیسری کوشش ہے۔ اسے 22 نومبر اور یکم دسمبر کے درمیان کسی بھی وقت لانچ کیے جانے کا امکان ہے۔

کم جونگ ان اور ولادیمیر پوٹن میں کیا باتیں ہوئیں؟

شمالی کوریا نے یہ اعلان ایک ایسے وقت کیا ہے جب امریکی طیارہ بردار بحری جہاز کارل ونسن جنوبی کوریا کی بندرگاہ بوسان پہنچا ہے۔ یہ جہاز پیونگ یانگ کے میزائل خطرات کے خلاف تیاری میں اضافے کے لیے یہاں بھیجا گیا ہے۔

شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن کی خصوصی بکتر بند ریل گاڑی

جاپانی وزیر اعظم فومیو کشیدہ کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا اور امریکہ جیسے شراکت داروں کے ساتھ مل کر جاپان اس پر اپنے رد عمل کے بارے میں غور کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی کا استعمال اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہو گی۔

کم جونگ ان روس میں: کیا پوٹن شمالی کوریا سے ہتھیار لیں گے؟

شمالی کوریا کا سیٹلائٹ منصوبہ

گزشتہ ستمبر میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے غیر معمولی دورہ روس کے بعد سیٹلائٹ روانہ کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے۔ روس میں انہوں نے ایک جدید خلائی لانچ سینٹر کا دورہ کیا تھا، جہاں روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا تھا کہ وہ پیونگ یانگ کو سیٹلائٹ کی تیاری میں مدد فراہم کریں گے۔

امریکہ نے روس کو ہتھیار دینے پر شمالی کوریا کو خبردار کیا

شمالی کوریا چونکہ امریکی اور جنوبی کوریا کے فوجیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا چاہتا ہے، اس مقصد کے لیے وہ ایک فوجی جاسوسی سیٹلائٹ کو مدار میں بھیجنا چاہتا ہے۔

شمالی کوریا کا سیٹلائٹ پروگرام
شمالی کوریا نے اس سے قبل بھی ’’نگران‘‘ سیٹلائٹ لانچ کرنے کی کوششیں کی ہیں، جن میں سے دو کامیابی سے مدار تک پہنچی بھی ہیںتصویر: YNA/AP/picture alliance

شمالی کوریا نے سن 2006 میں اپنے جوہری ہتھیاروں کا پہلا تجربہ کیا تھا، جس کے رد عمل میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس کے خلاف متعدد قراردادیں منظور کیں، جن میں اس سے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگراموں کو روکنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

رواں ہفتے کے اوائل میں شمالی کوریا نے امریکہ کی جانب سے جاپان اور جنوبی کوریا کے لیے سینکڑوں میزائلوں کی ممکنہ فروخت کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔

شمالی کوریا نے اس سے قبل بھی ’’نگران‘‘ سیٹلائٹ لانچ کرنے کی کوششیں کی ہیں، جن میں سے دو کامیابی سے مدار تک پہنچی بھی ہیں۔ تاہم اس بات کی حتمی طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ آیا یہ سیٹلائٹ سگنل بھیج بھی رہی ہیں یا نہیں۔

شمالی کوریا کے پڑوسیوں کا رد عمل

ان سمندری علاقوں سے متعلق بین الاقوامی میری ٹائم آرگنائزیشن کے کوآرڈینیٹنگ اتھارٹی کے طور پر شمالی کوریا نے جاپان کو تینوں بار اپنے لانچ کے منصوبوں سے آگاہ کیا ہے۔

جاپانی وزیر اعظم فومیو کشیدا نے اس نئے اعلان کی مذمت کی اور کہا کہ انہوں نے سرکاری ایجنسیوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس حوالے سے ’’معلومات جمع کریں اور اسے جاپانی عوام تک فراہم کرنے کی بھرپور کوششیں کریں، متعلقہ ممالک کے تعاون سے لانچ کے منصوبے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ہی غیر متوقع حالات کی تیاری کے لیے بھی پوری کوشش کریں۔‘‘

جنوبی کوریا نے اس اعلان کے جواب میں اپنے شمالی پڑوسی کو اس لانچ کے خلاف خبردار کیا۔

جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیف ڈائریکٹر آپریشنز کانگ ہو پِل نے پیر کے روز کہا، ’’ہم شمالی کوریا کو سختی سے متنبہ کرتے ہیں کہ وہ فوجی جاسوس سیٹلائٹ لانچ کرنے کی موجودہ تیاریوں کو فوری طور پر معطل کر دے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’اگر شمالی کوریا ہماری وارننگ کے باوجود فوجی جاسوسی سیٹلائٹ لانچ کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے، تو ہماری فوج لوگوں کی جانوں اور ان کی حفاظت کی ضمانت کے لیے ضروری اقدامات کرے گی۔‘‘

 ص ز/  (اے ایف پی، روئٹرز)

شمالی کوریا کے سربراہ روسی صدر سے کیوں مل رہے ہیں؟