1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شر پسند عناصر ملک کو کمزور کر رہے ہیں، بشار الاسد

10 جنوری 2012

شام کے صدربشار الاسد نے اپنے خلاف اٹھنے والی عوامی تحريک کوايک مرتبہ پھر بين الاقوامی شازش قرار ديتے ہوئے اس بات کا عہد کيا ہے کہ وہ دھمکيوں کا جواب آہنی ہاتھ سے دیں گے۔

https://p.dw.com/p/13h8d
شام کے صدربشار الاسدتصویر: dapd

شامی صدر الاسد نے اپنے تازہ ترین عوامی خطاب میں اس بات کو دہرايا کے شام ميں اٹھنے والی بغاوت کے پيچھے دہشت گرد اور بين الاقوامی سازش ہے۔ دمشق یونیورسٹی ميں تقرير کرتے ہوئے انہوں نے مزيد کہا، ’ہماری ترجيح اس بات پر ہونی چاہيے کے ہم اپنی سکيورٹی پہلے کی طرح مستحکم بنائيں اور اس کے ليے دہشت گردوں سے سختی سے نمٹنا لازمی ہے‘۔

شام کے صدر نے اپنی تقرير ميں عرب ليگ کو بھی تنقيد کا نشانہ بنايا اور کہا کہ يہ ليگ گزشتہ ساٹھ برسوں ميں عرب ممالک کے مفادات کے دفاع کو يقينی بنانے ميں ناکام رہی ہے۔

Syrien Assad Rede Januar 2012
عرب ليگ نے شام کی رکنیت معطل کر رکھی ہےتصویر: dapd

واضح رہے کے عرب ليگ نے شام کی رکنیت معطل کر رکھی ہے۔ عرب ليگ کی جانب سے معائنہ کاروں کی ايک ٹيم کو بھی شام بھيجا گيا، جن کا کام اس بات کا تعين کرنا تھا کہ شامی حکومت گزشتہ سال دسمبر ميں کيے گئے اپنے اس امن معاہدے پر عمل کر رہا ہے، جس کے تحت حکومت مخالف مظاہرين پر تشدد اور فوجی کارروائی کو روکنے کا عہد کیا گیا تھا۔ ليکن اس کے باوجود انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق شام ميں پرامن مظاہرين پر تشدد کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

شام کے صدر بشار الاسد 11 سال قبل حکومت ميں آئے تھے اور اپنے والد کی طرح انہوں نے بھی آمرانہ طرز حکومت کو ہی اپنایا اور اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو فوجی کارروائی کے ذريعے روکا۔ بغاوت کے آغاز سے ہی صدر بشار الاسد نے اسے اپنے اور اپنی حکومت کے خلاف شازش قرار ديتے ہوئے نہتے عوام کے خلاف ظالمانہ رويہ اخيار کيا، جس کی وجہ سے ان پر بين الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہاہے۔

اس حوالے سے بيروت ميں ابو حمزہ نامی ايک سياسی کارکن نے کہا، ’دس ماہ کے خون خرابے کے بعد آج صدر بشار الاسد کو خيال آرہا ہے کہ اس بغاوت کے پيچھے غير ملکی عناصر کا ہاتھ ہے‘۔ انہوں نے مزيد کہا کہ صدر کو سچائی کا کوئی اندازہ نہيں ہے۔

رپورٹ: عاصم سلیم

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں