1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گرمی مزدور کی پيداوار کو کيسے متاثر کر رہی ہے؟

26 جون 2021

موسمياتی تبديليوں کے نتيجے ميں پيدا ہونے والی شديد گرمی مزدوروں کے کام اور ان کی اجرتوں کو منفی طور پر متاثر کر رہی ہے۔ اگر معاملات يوں ہی آگے بڑھتے رہے، تو وہ وقت دور نہيں کہ مزدوروں کی پيداوار بيس فيصد تک گھٹ جائے گی۔

https://p.dw.com/p/3vb3a
Pakistan Hitzewelle
تصویر: Reuters/A. Soomro

يورپ ميں گزشتہ دنوں درجہ حرارت پينتيس ڈگری سينٹی گريڈ تک پہنچا تو کھلی فضا ميں کام کرنے والوں سے لے کر دفاتر ميں ملازمت کرنے والے، سب ہی کی طرف سے شديد تھکن کی شکايات سامنے آنے لگيں۔ ليکن اگر جنوبی ايشيا اور افريقہ پر نظر ڈالی جائے، تو ان خطوں ميں لوگوں کو سال کے بيشتر ماہ ايسی ہی شديد گرمی ميں کام کاج کرنا پڑتا ہے۔

گرمی کی شدت ميں اضافے اور پيداوار ميں کمی کا تعلق

کم آمدنی والی ملازمتوں سے وابستہ ايسے افراد جو زراعت، کنسٹرکشن اور کھلی فضا ميں ديگر کام کرتے ہيں، انہيں شديد گرمی کی وجہ سے دباؤ کا زيادہ سامنا رہتا ہے۔ اس کا صحت پر اثر تھکاوٹ، لُو لگنے  يا کبھی کبھار موت کی صورت ميں بھی نکل سکتا ہے۔ محققين البتہ اس نتيجے پر پہنچے ہيں کہ شديد گرمی کا براہ راست اثر مزدور کی پيداوار پر پڑتا ہے۔

اگر دنيا کا درجہ حرارت انديشوں کے مطابق ساڑھے تين فيصد تک بڑھا، تو سن 2100 تک جنوبی افريقہ ميں فی فرد مجموعی قومی پيداوار بيس فيصد تک گر سکتی ہے۔ گزشتہ برس کرائے گئے ايک مطالعے ميں يہ سامنے آيا ہے کہ زراعت، کان کنی، کنسٹرکشن اور ديگر کم تربيت يافتہ اور کم آمدنی والے افراد اس سے سب سے زيادہ متاثر ہوں گے۔

گرمی کی شدت میں اضافہ، شمسی توانائی کی کاروں کا روشن مستقبل

انٹرنيشنل ليبر آرگنائزيشن (ILO) نے بھی اس مد ميں دو برس قبل ايک مطالعہ کرايا تھا۔ اس ميں يہ بات سامنے آئی کہ شديد گرمی اور درجہ حرارت ميں اضافہ سن 2030 تک ملازمت کے اسی ملين مواقع کے ضياع کا سبب بن سکتے ہيں۔ يعنی اس دہائی کے اختتام تک دنيا بھر ميں کام کاج کا مجموعی دورانيہ 2.2 فيصد کم ہو سکتا ہے۔ جنوبی ايشيا ميں پاکستان سميت کئی ممالک، جہاں شديد گرمی پڑتی ہے، وہاں يہ شرح  اور بھی بلند پانچ فيصد تک ہو سکتی ہے۔ مجموعی طور پر اگر دنيا کے درجہ حرارت ميں اس صدی کے اختتام تک ساڑھے تين فيصد کا اضافہ نوٹ کيا گيا، تو اقتصادی پيداوار بيس فيصد تک کم ہو سکتی ہے۔

اٹلی کے شہر وينس ميں قائم يورو ميڈيٹرينيئن سينٹر آن کلائميٹ چينج (CMCC) سے منسلک شورو داس گپتا کے بقول، ''تيزی سے بڑھتی ہوئی گرمی ميں آپ کام بھی کم کر پائيں گے اور اس کے نتيجے ميں آپ کی آمدنی بھی کم ہو جائے گی۔‘‘ داس گپتا کے مطابق زيادہ آمدنی والے افراد کی نسبت کم آمدنی والے افراد زيادہ نقصان اٹھائيں گے۔ انہوں نے مزيد تنبيہ کی کہ صرف يہی نہيں بلکہ اس ممکنہ پيش رفت کے نتيجے ميں وسيع پيمانے پر نقل مکانی اور ہجرت بھی ديکھنے ميں آ سکتی ہے۔ ''لوگ غريب اور گرم علاقوں سے متوسط اور ٹھنڈے علاقوں کی جانب نقل مکانی کريں گے۔‘‘

ع س / ع آ (اسٹورٹ براؤن)